مختصر سوانح حیات
حضرت خواجہ پیر مٹھا
رحمۃ اللہ علیہ
از
حضرت خلیفہ شیخ الحدیث علامہ مولانا حبیب الرحمٰن گبول طاہری بخشی نقشبندی
فہرست
باطنی علوم خلافت سندھ کا انتخاب رحمت پور اوصاف حمیدہ کرامات وصال اولاد امجاد
بِسمِ اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
سیدی و مرشدی، پیر پیراں، خواجۂ خواجگاں حضرت قبلہ محمد عبدالغفّار صاحب (عرف پیر مٹھا) رحمت پوری رحمۃ اللہ علیہ آج سے کوئی ایک سو دس سولہ قبل جلال پور پیر والہ ضلع ملتان کے نزدیک لنگر شریف نامی ایک چھوٹے سے قصبہ میں عالم باعمل حضرت مولانا یار محمد صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔ شریعت و طریقت کے جامع، علم و عمل کے مجمع البحرین حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان میں پہلے بھی بہت سارے بزرگ اور علماء ہو گزرے۔ آپ کے والد ماجد، نیز چاروں بھائی بھی جیّد عالم تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا امام الدّین صاحب، مولانا محمد اشرف صاحب (جو کہ آپ کے بڑے بھائی اور حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کے خلیفہ مولانا محمّد عاقل رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے) اور مولانا محمد عاقل سے عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ عربی علوم سے فراغت کے بعد حضرت قاری مطیع اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے تجوید و قرأت کی تعلیم حاصل کی، جو کہ بڑے ماہر قاری تھے۔ یہاں تک کہ سالہا سال حرم شریف میں قرأت کی تعلیم دے چکے تھے۔ واضح رہے کہ حضرت رحمت پوری رحمۃ اللہ علیہ کچھ عرصہ ڈیرہ نواب میں مولوی نظام الدین صاحب کے پاس بھی پڑھے تھے، لیکن چونکہ وہ تصوّف و سلوک اور کئی مشہور صوفیاء کرام کے مخالف اور گستاخ تھے، اس لیے معلوم ہونے پر آپ کے والد گرامی مولانا یار محمّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ مدرسہ میں تشریف فرما ہوئے اور یہ کہہ کر آپ کو اپنے ساتھ واپس لے گئے کہ بدعقیدہ عالم کے یہاں پڑھنے سے بہتر ہے کہ آدمی ان پڑھ رہ جائے۔
باطنی علوم
شروع شروع میں جب آپ کے علمی مشاغل زیادہ تھے تو قریبی بزرگ حضرت حافظ فتح محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ساکن جلال پور پیر والا سے طریقہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔ حضرت حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ مستجاب الدعوات، عالم باعمل، متقی و متوکل بزرگ تھے۔
حضرت حافظ صاحب کے انتقال کے بعد مولانا الٰہی بخش اور سیّد کرم علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہما کی ترغیب پر ولی کامل عارف باللہ خواجۂ خواجگان حضرت فضل علی قریشی علیہ الرحمۃ کے دستِ حق پرست پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجدّدیہ میں بیعت ہوئے۔
حضرت رحمت پوری قدس سرہ فرماتے تھے کہ جس وقت یہ عاجز حضرت قریشی قُدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کو مصلّیٰ پر بیٹھے منتظر اور متوجّہ پایا۔ نمازِ ظہر کے بعد شرفِ بیعت حاصل ہوا۔ لیکن میں اسی وقت آپ سے اجازت لیکر واپس روانہ ہوا۔ گنجینۂ حیات غفاریہ میں آپ کے حوالہ سے مذکور ہے کہ حضرت قریشی قدس سرہ سے بیعت کے بعد سلطان الاذکار تک میرے تمام لطائف جاری ہوگئے۔ بے خوابی، جسم میں سخت گرمی، بدن پر کپکپی اور دماغ پر غیر معمولی بوجھ محسوس ہونے لگا، جس سے گھبرا کر تیسرے دن ہی پھر حضرت قریشی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوکر صورتحال عرض کی۔ جوابًا آپ نے قرآن مجید کی آیت ”اِنَّا عَرَضنَا الاَمَانَةَ … جُہُولا“ (۷۲) سورة احزاب تلاوت فرما کر ارشاد فرمایا۔ اس امانت سے ذکر اسم ذات ہی مراد ہے (یہ گرمی اسی سے ہے فکر کی کوئی بات نہیں)۔ البتہ درد سر محسوس کریں تو سر پر مکھن کی مالش کریں اور شدتِ گرمی محسوس ہو تو سرد پانی سے نہائیں۔ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور تمام خیالات و خطرات سے فارغ البال ہوگیا۔ لیکن پھر بھی جذبہ کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات وجد و مستی کے عالم میں بے اختیار دستار زمین پر پھینک دیتا۔ تہبند کے علاوہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا تھا۔ ننگے پاؤں اِدھر اُدھر دوڑتا پھرتا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت قریشی قدس سرّہ فرماتے تھے، مولوی صاحب کپڑے دھوبی کو دے آئے ہو کیا؟ اپنے پیر و مرشد حضرت قریشی علیہ الرحمۃ سے آپ کو والہانہ عقیدت و محبت تھی۔ وعظ و نصیحت میں ان کا حوالہ اور تذکرہ سرفہرست ہوتا تھا۔ ان کی تعریف میں بے شمار منقبتیں تیار کرکے پڑھتے، کوئی کرامت ظاہر ہوتی تو فرماتے یہ میرے پیر کی کرامت ہے۔ باادب اتنے کہ عمر بھر خانقاہ کی حدود میں ننگے پاؤں چلے۔ نیز حضرت قریشی قدس سرہ کو بھی آپ سے خاص محبت اور شفقت تھی اور خصوصی لگاؤ تھا۔
خلافت
آپ کے خلوص و للّٰہـیت کو دیکھ کر حضرت قریشی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو خلافت مرحمت فرمائی اور تبلیغ کے لئے سندھ جانے کا امر فرمایا۔ حسب ارشاد خلافت و اجازت کے بعد حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ نے بقیہ زندگی کا اکثر و بیشتر حصہ اندرونِ سندھ دین کی تبلیغ و اشاعت میں گزارا۔
سندھ کا انتخاب
آپ فرمایا کرتے تھے کہ صغر سنی سے میرے دل میں اہلِ سندھ کی محبت پیدا ہوئی، یہ اس لئے کہ ہماری بستی دریا کے کنارے واقع تھی۔ سندھ کے لوگ، جن میں بعض اوقات خواتین بھی شامل ہوتیں، حضرت خواجہ غوث بہاؤالحق زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کے دربار کی حاضری کے لئے پاپیادہ جاتے ہوئے رات کو ہمارے یہاں قیام کرتے تھے۔ میں دیکھتا تھا کہ ان کے پاؤں سُوج جاتے یا پھٹ جاتے تھے پھر بھی اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے آگے روانہ ہوتے تھے۔
اہل سندھ کی اولیاء اللہ سے اس قدر محبت کی بنا پر میرے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی تھی کہ کاش، حضرت قریشی علیہ الرحمہ مجھے تبلیغ کے لئے سندھ جانے کا امر فرمادیں تو بہتر۔ الحمد للہ! ہوا بھی یہی کہ حضرت قریشی رحمۃ اللہ علیہ نے میری قلبی کیفیت بھانپ کر مجھے سندھ جانے کا امر فرمایا۔ حضرت قریشی علیہ الرحمہ کو کشف القلوب (دلوں کے احوال جاننا) بہت زیادہ ہوتا تھا۔
گو خلافت و اجازت کے بعد تبلیغ کے سلسلہ میں آپ بکثرت سندھ میں تشریف لاتے تھے، لیکن عاشق آباد نامی مستقل مرکز پنجاب ہی میں بنایا تھا، جہاں حضرت قریشی رحمۃ اللہ علیہ بھی تشریف فرما ہوئے تھے۔ اس دوران سندھ کے بہت سارے فقراء جن میں حضرت سیدی و مرشدی سوہنا سائیں قدس سرہ سر فہرست تھے، سندھ اور پنجاب کے تبلیغی سفر میں ساتھ ہوتے اور مرکز عاشق آباد شریف کی تعمیر میں عملی طور پر شامل رہے۔ لیکن ان کے دل کی خواہش یہی تھی کہ کسی صورت حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ سندھ میں مستقل قیام فرمائیں۔
چنانچہ جب آپ خلیفہ ارشد حضرت سوہنا سائیں قدس سرہ کی دعوت پر چند مرتبہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے مقیم مسکین فقراء کے یہاں تشریف فرما ہوئے، جو مختلف بستیوں سے نقل مکانی کرکے محض ذکر و فکر اور شریعت پر عمل کرنے کی خاطر چھوٹی سی بستی بناکر رہ رہے تھے۔ فقراء کی محبت، شریعت مطہرہ پر عمل و استقامت دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئے اور ان کی گذارش پر خود بھی پنجاب سے نقل مکانی کرکے وہاں آکر آباد ہوئے اور اس بستی کا نام دین پور تجویز کیا گیا۔
ایک مرتبہ تبلیغی سلسلہ میں کچھ دقت اور رحمت پور شریف
اُنـڑ پور قیام کے بعد جیسے ہی آپ دین پور جانے کے لیے رادھن اسٹیشن پر پہنچے، دریائی سیلاب کی وجہ سے دین پور جانے کا راستہ بند ہوچکا تھا۔ کچھ دن رادھن اسٹیشن پر قیام فرمانے کے بعد لاڑکانہ کے فقراء کی دعوت پر لاڑکانہ تشریف لے گئے۔ جتنے دن لاڑکانہ میں قیام فرمایا، دور و نزدیک کے فقراء مسلسل آتے رہے، تبلیغ دین کا کام بھی خوب ہوا۔ مقامی فقراء نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مستقل طور پر لاڑکانہ میں رہنے کی خواہش کی کہ یہ بڑا شہر ہے۔ آمد و رفت کی تمام سہولتیں موجود ہیں، اس لیے دین پور سے بڑھ کر یہاں دین کا کام ہوسکتا ہے۔ ان کی یہ تجویز چونکہ للّٰہـیت پر مبنی تھی اور آپ کی زندگی ویسے بھی دین کی اشاعت و خدمت کے لیے وقف تھی، آپ نے حامی بھرلی اور اس طرح درگاہ رحمت پور شریف کا قیام عمل میں آیا۔
درگاہ رحمت پور شریف کے قیام کے دوران آپ نے شریعت و طریقت کی ترویج و اشاعت کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اندرون ملک کے علاوہ بنگال اور ایران تک آپ کا پیغام پہنچا۔ لاکھوں کی تعداد میں دین سے دور، نفس و شیطان کے پھندوں میں جکڑے ہوئے افراد کی اصلاح ہوئی۔ نہ معلوم کتنے چور، ڈاکو، شرابی تائب ہوکر متقی و پرہیزگار بنے۔
نیز آپ کے خلفاء کرام جن کی تعداد ۱۴۰ بتائی جاتی ہے، سندھ، پنجاب، سرحد و بلوچستان میں تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے اور ہر جگہ غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوتی رہی۔ آپ کو امّتِ محمّدیہ کی اصلاح کا اس قدر فکر دامن گیر رہتا تھا کہ مسلسل کئی کئی گھنٹے خطاب کرنا آپ کے معمولات میں شامل تھا۔ اکثر و بیشتر روزانہ نمازِ فجر کے بعد ذکراللہ کا حلقہ مراقبہ کرانے کے بعد جیسے ہی وعظ شروع فرماتے، گیارہ بجے تک مسلسل خطاب جاری رہتا تھا۔ اس دوران یکے بعد دیگرے سامعین ضروریات کے لیے اُٹھتے تھے لیکن آپ پر سکر و محویت کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بعض اوقات ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہتا اور آپ نماز ظہر ادا فرماکر حویلی مبارک میں تشریف لے جاتے تھے۔
بعض اوقات فرماتے تھے کہ مجھے مجلسِ ذکر سے اٹھنے کے لیے صرف دو چیزیں مجبور کرتی ہیں (۱) نماز (۲) سامعین کی تھکاوٹ کا احساس۔ ظہر سے عصر تک گھر تشریف فرما رہنے کے بعد نماز عصر کے لیے مسجد تشریف لاتے اور نمازِ عصر کے بعد سے مغرب تک وعظ فرماتے تھے۔
عمر رسیدہ ہونے کے باوجود آپ کے ان معمولات میں نہ فقط یہ کہ فرق نہیں آیا بلکہ مزید اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات نمازِ عشاء کے وقت کھڑے کھڑے کئی گھنٹہ خطاب فرمایا۔ مرض الموت میں جامع مسجد رحمت پور شریف میں بروز جمعہ مسلسل چھ گھنٹے خطاب فرمایا۔ حالانکہ نقاہت اور کمزوری کا یہ عالم تھا کہ چلنے پھرنے کی سکت مطلقًا نہ تھی۔ نماز کے لئے پہیوں والی کرسی (وہیل چیئر) پر لائے گئے تھے۔ پھر بھی نمازِ باجماعت اور تبلیغ دین میں فرق آنے نہیں دیا۔
اوصافِ حمیدہ
توکل، تقویٰ، صبر و شکر، خدمتِ خلق و دیگر اوصافِ حمیدہ آپ کے پاکزیہ خمیر میں شامل تھے۔ چنانچہ عام بازار کی بنی ہوئی چیزوں مثلًا مٹھائی، گُڑ، ہوٹل کے کھانے اور مارکیٹ کے گوشت سے مکمل پرہیز کرتے تھے۔ گو یہ چیزیں حلال ہیں لیکن چُونکہ عام طور پر ان میں ضروری پاکیزگی اور صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا، اس لیے یہ مشتبہ کے زمرہ میں آتی ہیں، جن سے بچنے کے لیے خود رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے تاکید کی ہے۔
آپ کے اس تقویٰ کا جماعت پر بھی نمایاں اثر پایا جاتا تھا۔ خلفاء کرام سفر میں جاتے وقت ستو، میٹھی روٹی (جو کہ کئی دن تک استعمال کی جاسکتی ہے) اور نمک مرچ اپنے پاس رکھتے جسے بطور سالن استعمال کرتے تھے لیکن کھانے کا سوال کسی سے نہیں کرتے تھے۔ احقر کے والد گرامی (حضرت خلیفہ مولانا محمد بخش صاحب مدظلّہ) کھیرتھر جبل کے مغربی جانب ٹکوباران میں رہتے تھے (اس وقت راقم الحروف کی عمر ۵، ۶ برس تھی) اور نانا جان رحمۃ اللہ علیہ باعیال رحمت پور شریف جاتے ہوئے ۴، ۵ دن تک پیدل پہاڑی سفر کرکے دادو پہنچتے، پھر بھی نہ تو کبھی خود ہوٹل کا کھانا خرید کر کھایا، نہ ہمیں لے کر دیا، بلکہ کئی دن کی باسی روٹی پر اکتفا کیا یا فروٹ خرید کر استعمال کرتے، یہاں تک کہ رحمت پور شریف پہنچتے۔
توکل: حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کمال درجہ کے متوکل تھے۔ فقراء کی آمد مسلسل رہتی تھی۔ سو، دو سو مسافر روزانہ ہوتے تھے، گیارہویں شریف کے جلسہ میں ہزاروں کی تعداد میں اہل ذکر ہوتے تھے۔ کوئی دو دن رہتا کوئی ایک ہفتہ، لیکن تمام مہمانوں کے لئے ایک ہی قسم کا لنگر ہوتا۔ کسی سے سول کرنا تو کجا، خود جلسوں کے موقع پر عمومًا یہ اعلان فرماتے تھے کہ آپ بکثرت تشریف لائیں، مل کر اللہ اللہ کریں، آپ بے فکر رہیں، قیامت تک آپ سے سوال نہیں کیا جائے گا۔ زکٰوة، صدقات، خیرات بھی اپنے پڑوس والوں اور رشتہ داروں کو دیں، دربار شریف پر جس قدر زیادہ جماعت آتی، آپ اسی قدر زیادہ خوش ہوتے تھے۔
کوئی کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہوتا، آپ کے نزدیک اس کی حیثیت ایک سیدھے سادھے مسکین سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، بلکہ غریبوں مسکینوں سے آپ کو اور زیادہ محبت ہوتی تھی۔ مستغنی اس قدر کہ لاڑکانہ کے بڑے بڑے رئیس دعا کے لئے حاضر ہوتے تو آپ صاف صاف الفاظ میں نماز، داڑھی، خوفِ خدا، غریبوں سے ہمدردی کی تلقین فرماکر دعا کرتے لیکن کبھی ان سے ایک پیسے کا بھی دنیاوی فائدہ حاصل نہیں کیا۔
آپ اپنے متعلقین و احباب کو توکل و استغنا کا امر کرتے اور کسی سے سوال، چندہ کرنے سے سختی سے منع فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ کے ملفوظات (جو کہ مولانا مفتی عبدالرحمٰن صاحب نے جمع کئے) میں ہے کہ ایک مرتبہ دوران خطاب ارشاد فرمایا: مجھے مکانات بنانے اور عمدہ مکانات میں رہنے کی رغبت نہیں اور سوال کرنے سے سخت بیزار اور اس کا مخالف ہوں۔ گھر میں اہلخانہ کو قرآن مجید پر ہاتھ رکھوا کر عہد لیا کہ کسی سے سوال نہیں کریں گے۔ اگر کسی قسم کا کام ہو تو مجھے بتادیں، اگر مناسب ہوگا تو میں خود انتظام کردوں گا ورنہ نہیں۔ باقی خلفاء یا کسی اور فقیر کو درگاہ شریف کے کام کے سلسلے میں (بھی) نہ کہیں۔
اتباعِ سنت: بلاشبہ آپ سرتاپا سنتِ رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم کے عملی نمونہ تھے۔ اور یہی آپ کی سب سے بڑی کرامت تھی۔
درگاہ رحمت پور شریف میں تو آپ نے عملی طور پر نظامِ مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلّم نافذ کر رکھا تھا۔ لیکن بیرونِ درگاہ رہنے والے اہلِ ذکر فقراء بھی داڑھی، نماز باجماعت، مسواک، عمامہ کے پابند، خلافِ شرع رسم و رواج سے پرہیز کرتے اور اہلِ ذکر خواتین، شرعی پردہ کا اس قدر اہتمام کرتیں کہ بہت سے علماء بھی یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتے۔
نیز یہ حقیقت اور بھی زیادہ اہم اور قابلِ قدر ہے کہ آپ کی جماعت میں آکر، خواتین و حضرات یکساں مستفید ہوئے، جب کہ مردوں کی اصلاح کے لیے تو الحمد للّٰہ پہلے بھی بہت سے علماء اور پیروں نے اصلاحی کوششیں کی تھیں، لیکن خواتین کی اصلاح اور ان میں نیکی، تقویٰ کا شوق، شریعت مطہرہ کے عین مطابق شرعی پردہ کا اہتمام جو آپ کی جماعت میں پایا جاتا تھا اور آج تک پایا جاتا ہے، کم از کم آج تک کہیں اور نظر نہیں آیا۔ شریعت مطہرہ کی پابندی اور آپ کے خلوص و للّٰہـیت کا عمدہ ثمر تھا کہ بڑے بڑے با اثر افراد کی مخالفت اور تمام تر توانائیاں صرف کرنے کے باوجود آپ کی خداداد مقبولیت میں برابر اضافہ ہوتا رہا اور آج تک بالواسطہ آپ کے فیوض و برکات اندرون و بیرون ملک پھیلتے ہی جارہے ہیں۔ فَالۡحَمدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذالِک۔
چند کرامات
گو کرامت کا ظاہر ہونا نہ ولایت کی دلیل ہے اور نہ ضرورت اور نہ ہی حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ اس کو کوئی خاص اہمیت دیتے تھے، لیکن کرامت کے حق ہونے اور تائیدِ الٰہی ہونے میں تو تمام اہل السّنۃ کا اتفاق ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کی قبولیت عامہ کے ساتھ ساتھ بکثرت کرامات سے تائید و حمایت فرمائی۔ بطورِ نمونہ چند ایک کرامات پیشِ خدمت ہیں۔
فقیر محمد عثمان بروہی نے بتایا کہ ایک مرتبہ درگاہ رحمت پور شریف میں مقیم فقیر عبدالغفور میمن کے مکان کو کسی طرح آگ لگ گئی۔ ہم لوگ آگ بجھانے کے لیے پہنچے لیکن کسی طرح آگ پر قابو نہ پاسکے۔ پورا کمرہ آگ کی لپیٹ میں آچکا تھا کہ اچانک ازخود آگ بجھ گئی۔ ہم لوگ حیران ہوگئے کہ یہ آگ کیسے بجھ گئی۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ فقراء کا شور و غل سنکر حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت فرمایا۔ جب آپ کو بتایا گیا کہ فقیر کے گھر کو آگ لگ گئی ہے تو آپ نے پانی کا بھرا ہوا لوٹا جلتی ہوئی انگھیٹی پر ڈال دیا۔ اِدھر انگیٹھی کی آگ بُجھی، اُدھر فقیر عبدالغفور کے گھر کی آگ کافور ہوگئی۔
فقیر محمد عثمان صاحب جو کہ نہایت صالح اہلِ ذکر آدمی ہیں، حضرت پیر مٹھا قدس سرہ کے زمانے میں لنگر کے مال مویشی کا کام کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ لنگر کے مویشیوں کے لیے پلال (چال کا بھوسہ) لینے کے لیے چند میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں میں گئے، جہاں کے اکثر باشندے حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے مخالف تھے۔ خاص کر وجد و جذبہ سے تو ان کو سخت نفرت تھی۔ حسنِ اتفاق ایسا ہوا کہ اُن کے پیر صاحب بھی اس رات ان کے یہاں تشریف فرما تھے۔ محمد عثمان نے نمازِ مغرب جماعت سے ادا کی لیکن نماز عشاء قیام گاہ پر پڑھ کر سوگئے۔ صبح کو پتہ چلا کہ پیر صاحب کے مخالف مریدین نے آپس میں یہ طے کیا تھا کہ رات عشاء کے وقت محمد عثمان آئے گا، اس کی خوب پٹائی کریں گے۔
چنانچہ پروگرام کے تحت اپنے ایک آدمی کو محمد عثمان سمجھ کر مارنے لگے۔ اس نے کافی منّت سماجت کی کہ میں محمد عثمان نہیں۔ تمہارا فلاں ساتھی ہوں لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور اس کو مار مار کر نڈھال کردیا۔ بعد میں یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ یہ تو صاحب دعوت، پیر صاحب کے مخلص مرید تھے، جو کہ کچھ دیر پہلے ہمیں محمد عثمان نظر آرہے تھے۔ چنانچہ جنگل کی آگ کی طرح یہ واقعہ پورے علاقہ میں خوب مشہور ہوا اور کئی ماہ تک وہ صاحب بستر علالت پر پڑے رہے۔ بفضلہ تعالیٰ آج بھی اس واقعہ کے چشم دید گواہ موجود ہیں۔ محمد عثمان صبح کو پلال لے کر رحمت پور شریف حاضر ہوئے اور حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ سے یہ ماجرا تفصیل سے ذکر کیا، جسے سُن کر آپ نے ارشاد فرمایا، یہ میرے پیر کی کرامت ہے کہ فقیر صاحب محفوظ رہا اور یہودیوں کی طرح (جنہوں نے اپنے ہی ساتھی کو حضرت مسیح علیہ السلام سمجھ کر سولی چڑھادیا) اپنے ہی آدمی کی پٹائی کر بیٹھے۔
حافظ نور محمد صاحب نے بتایا کہ ۱۹۴۷ع میں حضور پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ غالبًا محمد عیسیٰ نامی ایک فقیر کی دعوت پر ٹنڈو محمد خان کے قریب مویا نامی ایک چھوٹے سے شہر میں تشریف لے گئے۔ کافی فقراء ذکراللہ میں محو حضور کے پیچھے باادب جارہے تھے۔ یہ خشک سالی کا زمانہ تھا۔ بارش نہ برسنے کی وجہ سے فصلیں سوکھ رہی تھیں۔ چنانچہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ نماز کے لئے مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر ہندو بھی کہنے لگے: مسلمانو! اپنے پیر صاحب سے عرض کرو کہ بارش کے لئے دعا فرمادیں، مال مویشی کے لیے گھاس نہیں، فصلیں تباہ ہورہی ہیں وغیرہ۔ حافظ صاحب بتاتے ہیں کہ اس وقت آسمان کوئی معمولی سا بادل بھی نہیں تھا۔ لیکن حضور نے جیسے ہی دعا فرمائی اور نماز کے بعد نئے آدمیوں کو ذکر سمجھا کر وعظ فرمایا، پوری فضا پر بادل چھاگئے اور اس قدر بارش ہوئی کہ صحرا جل تھل ہوگیا۔ واپسی پر جب حضرت اقدس کا دوبارہ اس راستہ سے گذر ہوا تو ہندو زور زور سے ایک دوسرے کو آواز دیکر بلاکر کہنے لگے، دیکھو بارش والے پیر صاحب یہ ہیں۔
آفتاب ولایت غروب ہوتا ہے
الغرض حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ نے دین اسلام کی اشاعت کی خاطر اہلِ سندھ پر احسانِ عظیم فرماکر سندھ میں مستقل قیام فرمایا۔ اولیاء اللہ کے مرکز و محور باب الاسلام سندھ اور سندھی زبان سے آپ کو اس قدر محبت تھی کہ شوقیہ طور پر سندھی میں بات چیت بھی کرتے اور فرماتے تھے کہ میں سندھ میں رہتا ہوں اور سندھی ہوں۔ آخر عمر تک سندھ میں قیام فرما رہنے اور لاکھوں کی تعداد میں راہِ حق سے بھٹکے ہوئے افراد کی اصلاح فرمانے کے بعد عملی طور پر اپنی نورانی جماعت کی باگ ڈور اپنے مخلص خلیفہ نائب حضرت قبلہ الحاج اللہ بخش عباسی عرف سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے سپرد کی، اور مؤرخہ ۸ شعبان المعظم ۱۳۸۴ھ بمطابق ۱۲ دسمبر ۱۹۶۴ع اتوار کی رات اس فانی جہان سے راہئ ملک بقا ہوا۔
اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ
کیا کیف کا عالم ہوتا تھا کیا لطف
کی بارش ہوتی تھی
جب خطبہ و درس میں ہوتا تھا حق حق کی ہدایت فرمانا
کیا عشق کی گرما گرمی تھی کیا فیض
کی عام ارزانی تھی
ہر وعظ میں شعلہ بیانی سے افسردہ دلوں کو گرمانا
اب نظریں ڈھونڈتی پھرتی ہیں اور
کان ترستے رہتے ہیں
وہ شکل نہ وہ الفاظ نہ وہ اللہ کے گھر کا دیوانہ
۞
حضرت پیر سوہنا سائیں قدس سرہ کے وصال مؤرخہ ۶ ربیع الاول ۱۴۰۴ھ سے لے کر آپ کے عالم باعمل صاحبزادہ حضرت علامہ الحاج خواجہ محمد طاہر صاحب بخشی عباسی مدّظلّہ مسلسل مثالی دینی خدمت کررہے ہیں۔ دسیوں دینی مدارس اور تبلیغی مراکز قائم کئے، لاکھوں کی تعداد میں لوگ آپ کی صحبت بابرکت سے مستفیض ہوئے اور ہورہے ہیں۔ آپ کا قیام زیادہ تر درگاہ اللہ آباد شریف کنڈیارو میں رہتا ہے۔
اولادِ امجاد
حضرت پیر مٹھا قدس سرہ بوقت وفات لاکھوں کی تعداد میں روحانی اولاد کے علاوہ نسبی قریبی رشتہ داروں میں ۴ بیوائیں، ایک صاحبزادہ حضرت مولانا محمد خلیل الرحمٰن صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور دو صاحبزادیاں سوگوار چھوڑ گئے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک صاحب زادہ مولانا محمد مظہر جانِ جاناں مدظلہ عطا فرمائے۔ اور مؤرخہ ۱۳ رمضان المبارک ۱۴۲۰ھ کو انتقال فرماگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رَاجِعُوۡنَ۔ حضرت محمد مظہر جانِ جاناں کو بھی اللہ نے ایک صاحبزادہ عطا فرمایا، جن کی ولادت حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ مبارک میں ہوئی۔ اور ان کو اللہ نے ایک صاحبزادہ عطا فرمایا، جن کا نام حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے اسمِ مبارک پر محمد عبدالغفار مدظلہ رکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے روحانی و جسمانی جدِ امجد حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ حضرت پیر مٹھا قدس سرہ کے نواسوں میں سے حضرت صاحبزادہ مولانا محمد دیدۂ دل صاحب، میرے پیر و مرشد حضرت صاحبزادہ مولانا محمد طاہر مدظلہ العالی کے خلیفہ اور مبلغ دین ہیں۔ اللہ ان کو طریقۂ عالیہ کی خدمت و اشاعت کی مزید توفیق عطا فرمائے۔
آپ کا قیام مرکز غریب آباد شریف نزد شیخ زید کالونی لاڑکانہ میں ہے، جہاں ہر چاند کی ۱۳ تاریخ کو اجتماع کے علاوہ ہر سال ۸ شعبان المعظم کو حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے عرس شریف کے موقع پر عظیم روحانی اجتماع ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس پورے خانوادے کو شاد و آباد رکھے اور اپنے آباؤ اجداد کے نقشِ قدم پر چلنے کی ہمّت و توفیق مرحمت فرمائے، آمین۔
حبیب بخشی
اللہ آباد شریف، کنڈیارو
[اوپر]