اہل ذکر حضرات کی خدمت میں چند معروضات

تحریر لطیف
حضرت شیخ المشائخ خواجہ محمد طاہر عباسی نقشبندی مجددی مدظلہ العالی

  ڈاؤنلوڈ کریں

 

سالک کے سست ہوجانے کی دو اہم وجوہات

(۱) بے فرمانوں کی ہم نشینی

خوش قسمتی سے جب سالکین کو اہلِ دل حضرات کی صحبت اور ہم نشینی حاصل ہوجائے تو غافلین اور بے فرمانوں کی صحبت اور ہم نشینی سے بچنا چاہیے۔ دیگر صورت میں نقصان کا اندیشہ ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ”فَلا تقعد بعد الذکریٰ مع القوم الظالمین“ (سورۃ انعام) پس نصیحت حاصل ہونے کے بعد بے فرمانوں کے ساتھ مت بیٹھو۔

ایک عمدہ مثال

بدصحبت اور نیک صالح لوگوں کی صحبت اور ان سے حاصل شدہ فیض کی مثال، پاک اور پلید شئے کی طرح ہے۔ کسی فرد کے پاس پاک صاف دودھ کا بھرا ہوا مٹکا ہو۔ اب اگر اس میں چند قطرے پیشاب کے پڑ جائیں تو وہ سارا دودھ ناپاک ہو جائے گا اور پینے کے قابل نہیں رہے گا۔

دور شو از اختلاطِ یارِ بَد
یارِ بَد بدتر بود از مار بَد

مار بد تنہا ہمیں بر جان زند
یار بد بر جان و بر ایمان زند

(بد یار کی صحبت سے دور بھاگو، کیونکہ بَد یار، بَدمار (سانپ) سے بھی خطرناک اور جان لیوا ہے۔ کیونکہ سانپ کے ڈسے ہوئے کو صرف جان کا خطرہ ہے، اور بد یار کے ڈسے ہوئے کو جان کے ساتھ ایمان کا بھی خطرہ ہے۔

ایک اور جگہ پر قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ”وَ لَا تطع مَن اَغفلنا قَلبہ عن ذِکرنا“ (سورۃ کہف) پس تابعداری نہ کرو اس کی جس کے قلب کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل بنادیا ہے۔

(۲) شیخ کامِل کی صحبت میں آمدورفت میں کمی واقع ہوجانا

مرید کی مثال ایک شیرخوار بچہ کی طرح ہے۔ شیر خوار بچہ زیادہ وقت اپنی ماں سے علیحدہ نہیں رہ سکتا، کیونکہ اس کی غذا ماں کے سینہ میں رکھی گئی ہے۔ اس غذا کے علاوہ دیگر غذا اس کی ہلاکت کا باعث ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ایک مرید ابتدائی زمانہ میں زیادہ عرصہ اپنے شیخ کامل کی قربت اور صحبت سے دور نہ رہے۔ کیونکہ اس کی غذا شیخ کے قلب میں بصورتِ فیض اور اس کے کلام میں بصورتِ نصیحت موجود ہے۔ اب مرید کو اس پر اکتفا کرنی ہے۔ دوسروں کی صحبت چاہے ظاہری طور پر اور علمی لحاظ سے کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو اختیار نہ کرے، اور نہ کسی اور کا کلام، چاہے وہ کتنا بڑا عالم فاضل کیوں نہ ہو، اس کے لئے مفید ہے۔

پیر کی صحبت اپنی مرضی پر کبھی بھی نہ چھوڑے

حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ فرزند روحانی کا دودھ سے جدا ہونا کیا ہے؟ پیر کی صحبت سے جدا ہونا۔ لہٰذا جو مرید فرزند صفت ہے اس کو پیر کے حکم کے بغیر صحبت سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔ فرزند جسمانی کے دودھ پینے اور دودھ چھوڑنے کی مدت تو معلوم ہے، لیکن فرزندِ روحانی کے دودھ پینے کی مدت کو پیر جانتا ہے ناکہ مرید خود۔ فرزندِ روحانی کے دودھ چھوڑنے کا وقت وہ ہے جب اس کے دل کی آنکھ روشن ہوجائے اور وہ منشاء و ارادۂ الٰہی کو سمجھنے لگے اور آخرت کے نفع و نقصان کو جاننے لگے۔

ہر انسان کو چار آنکھیں ہوتی ہیں

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور زمانہ کتاب ”احیاء العلوم“ میں فرماتے ہیں ”ہر انسان کو چار آنکھیں ہوتی ہیں۔ دو تو اس کے سر میں ہوتی ہیں جن سے دنیاوی امور کو دیکھتا ہے، اس کے نفع و نقصان کو سمجھتا ہے۔ جبکہ دو آنکھیں اس کے دل میں ہوتی ہیں جن سے وہ آخرت کے اُمور کو دیکھتا ہے، گناہ ثواب کا فرق اور حلال حرام کی تمیز کرسکتا ہے“۔

جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ”فانھا لا تعمی الابصار و لکن تعمی القلوب التی فی الصدور“ (سورۃ الحج) پھر بیشک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو کہ سینوں میں ہیں۔

دل کا اندھا پن سخت نقصان دہ ہے

اس آیۂ کریمہ میں یہ بتانا مقصود ہے کہ ظاہری اندھا پن اتنا نقصان دہ نہیں جتنا کہ دل کا اندھا پن، کیونکہ اگر دل اندھا ہوجائے تو پھر ہدایت پانا، دین اور آخرت کی راہ پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ بلکہ انسان محروم ہی محروم ہوجاتا ہے۔ ظاہری آنکھوں سے اندھا دنیا کے پُرلطف نظاروں، سبزہ زار، کوہ، دشت، دریا، سمندر، آبشار دیکھنے سے محروم رہتا ہے۔ جبکہ دل کا اندھا اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت کے نظارے، عشق نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کے اسرار، نیکی و تقویٰ کے انوار کے ساتھ دنیا کی بے ثباتی و ناپائیداری، بے وفائی کو بھی نہیں سمجھ پاتا۔ پھر اس کے دام حرص میں پھنس جاتا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا وصال مشکل ہے

اب شیطان اس کو اسی فکر میں مبتلا رکھتا ہے کہ خود کیا کھاؤ گے اور بچّوں کو کیا کھلاؤ گے، خود کیا پہنو گے اور بچوں کو کیا پہناؤ گے، خود کہاں رہو گے اور بچوں کو کہاں رکھو گے؟ اسی فکر میں رات دن مبتلا آدمی اللہ تبارک و تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا۔ ایسے افراد کیلئے کہا جاتا ہے کہ معرفتِ الٰہی کی راہ مشکل ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا وصال آسان ہے

لیکن جن حضرات کا یہ حال ہو، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ شیطانِ لعین ایک بزرگ سے ہر صبح آکر یہ پوچھتا تھا کہ کیا کھاؤ گے؟ وہ بزرگ فرماتے موت کا شربت۔ پھر ملعون پوچھتا کہ کیا پہنو گے؟ جواب دیتے کفن کا لباس۔ اور جب وہ کہتا کہاں رہو گے؟ فرماتے قبر میں۔ یہ جوابات سُن کر شیطان مایوس ہوکر چلا جاتا تھا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دل کو غیر اللہ کی محبت سے آزاد کرالیا اور پھر پوری سچائی و طلب کے ساتھ طلب مولیٰ کی راہ پر چل پڑے۔ اس آیت کریمہ کے فرمان کے مطابق وصالِ مولیٰ ان کیلئے آسان ہوگیا۔ ”والذین جَاھدوا فِینا لنھدینھم سُبلنا“ (سورۃ عنکبوت) ترجمہ: اور جنہوں نے ہمارے واسطے محنت کی، ہم سمجھا دیں گے اُن کو اپنی راہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا وصال تین دنوں میں

جیسا کہ کتابوں میں درج ہے کہ حضرت شیخ شبلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کسی نے پوچھا کتنے دنوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچے؟ فرمایا فقط تین دنوں میں۔ اس نے حیرت سے عرض کیا کہ حضرت وہ کیسے؟ فرمایا کہ وہ اس طرح کہ جب میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ پر بیعت ہوا اور توبہ کی تو پہلے دن دل سے دنیا کا خیال نکال دیا، دوسرے دن عقبیٰ سے دستبردار ہوا، تیسرے دن کوئی حجاب بیچ میں نہ رہا اور اللہ تبارک و تعالیٰ تک رسائی ہوگئی۔

دردِ دل دنیا و عقبیٰ سے بڑھکر نعمت ہے

حدیثِ مبارکہ کے مصداق جس دل کا مقام یہ ہو ”لا یسعنی ارضی ولا سمائی ولکن یسعنی قلب عبدی المؤمن“ کہ مجھے زمین و آسمان نہیں سما سکتے، اے اہل ایمان تمہارا دل ہی میرا گھر ہے جو مجھے سما سکتا ہے۔ ایسا دل جہاں خالق دوجہاں کا بسیرا ہو، دنیا تو کیا عقبیٰ کا بھی خیال نہیں آسکتا۔ جیسا کہ شیخ فرید الدین عطّار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا

ذرۂ دردِ خدا در دل ترا
بہتر از ہر دوجَہاں حاصل ترا

کفر کافر را و دیں دیندار را
ذرۂ دردت دلِ عطار را

اے عطار اگر تیرے دل میں اللہ تعالیٰ کے درد کا ذرّہ بھی موجود ہو تو یہ دو جہانوں سے بڑھ کر نعمت ہے۔ کفر کافر کو اور دین دیندار کو مبارک ہو، مگر اے پروردگار عطّار کے دل کو تیرے درد کا ایک ذرہ بھی کافی ہے۔

دردِ دل عشق سے بھی بڑھ کر نعمت ہے

حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں علم سے عمل بہتر ہے اور عمل سے اخلاص اور اخلاص سے عشق اور عشق سے درد بہتر ہے۔

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں

یہاں علم سے کیا مراد ہے؟

انسان جو کچھ عمل کرتا ہے وہ دو قسم کا ہے۔ ایک وہ جو تم کو خدا تک پہنچادے جیسے کہ طاعات و عبادات، دوسرا وہ جو تم کو خدا تعالیٰ سے دور و محجوب کردے جیسے کہ تمام معاصی۔ ان دونوں قسم کا علم حاصل کرنا فرض ہے اور یہی علم پر مراد و مقصود ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے علم کی ایک اور تقسیم ”احیاء العلوم“ میں بیان فرمائی ہے جس کو وہ علمِ مکاشفہ و علمِ معاملہ سے تعبیر فرماتے ہیں۔ آئندہ کبھی اس تقسیم علم کو بھی تحریر کیا جائے گا۔

علم و عمل، نر و مادہ کی طرح ہے

جیسا کہ اوپر کی دو قسموں کا تذکرہ ہوا۔ صرف یہی علم کافی عمل ضروری ہے۔ عمل کے ذریعہ دین و دنیا کی فلاح حاصل ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے

علم نر آمد و عمل مادہ،   دین و دولت بد و شد آمادہ

علم نر ہے اور عمل مادہ، ان دونوں کے ملاپ سے دین کی دولت میسر ہوتی ہے۔ اہل عمل صلحاء و ابرار ہیں۔

مخلصین سے شیطان دور بھاگتا ہے

جس طرح اہلِ علم سے صاحب عمل کا مقام بلند ہے، اسی طرح صاحبِ عمل سے مخلصین کا مقام بُلند تر ہے۔ عالم علم پر اور عامل عمل پر ناز کرتے ہیں، جبکہ اہلِ اخلاص اپنے ربّ پر ناز اور بھروسہ کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہوتا ہے، اور ان کے سایہ سے شیطان بھی دور بھاگتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ”قال فبعزتک لاغوینھم اجمعین۝ الّا عبادک منھم المخلصین۝“ (سورۃ صٓ) ترجمہ: بولا قسم ہے تیری عزت کی، میں گمراہ کروں گا ان سب کو مگر ان میں جو تیرے چُنے ہوئے بندے ہیں (ان کو نہیں)۔

ایک اہلِ دل کی شیطان سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ملعون سے دریافت کیا تو کب بندۂ مؤمن کا پیچھا چھوڑتا ہے۔ اس نے کہا جب بندۂ مؤمن کے دل میں نورِ معرفت کا سورج روشن ہوجاتا ہے تو اس کی نورانیت مجھ کو جلاتی ہے، اس سے دور بھاگ جاتا ہوں، بلکہ جس جگہ پر بھی اس عارف بندہ کی نظر پڑتی ہے وہاں پر بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ یہ مخلصین کا مقام و مرتبہ ہے۔

عشق و محبت فرض ہے

عاشقین کا معاملہ عجیب ہے۔ ان کا مذہب یہ ہے کہ جس طرح ظاہر میں نماز روزہ فرض ہے، اسی طرح باطن میں عشق و محبت فرض ہے۔ وہ فرماتے ہیں چونکہ عشق بندہ کو خدا تک پہنچا دیتا ہے، اس بنا پر عشق فرض قرار دیا گیا ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ زندگی عشق سے ہے، یہ نہیں تو موت ہے۔ عشق کا کام ہے جلانا، خاکستر کرنا۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ”العشق جمرۃ من جمرات النار یحرق ماسوی اللہ“، عشق آگ کی چنگاریوں میں سے ایک چنگاری ہے جو کہ غیر اللہ کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہ دن کو ہم اور آپ کے درمیان موجود رہتے ہیں، دنیاوی کاروبار، خرید و فروخت، زراعت و تجارت بھی کرتے ہیں، بولتے ہنستے بھی ہیں، لیکن وہ رات کی تاریکیوں کو پسند کرنے والے ہوتے ہیں۔

عاشق رات کی تاریکیوں کو محبوب رکھتے ہیں

دن ان عاشقین پر بڑا کٹھن گذرتا ہے، کیونکہ یہ ہجر و فراق کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ رات کی تاریکی ان کے لئے وصال و قربت کا پیغام لیکر آتی ہے۔ جیسے جیسے سورج غروب ہونے کی طرف مائل ہوتا جاتا ہے تو ان کی خوشی و مسرت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان کی طلب، جستجو، تڑپ اور پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ وقت قریب آرہا ہے جس میں وہ بندگی کا طوق گردن میں ڈال کر سجدہ ریز ہوکر اس آیت کریمہ پر عمل کرسکیں گے:

والذین یـبیـتون لربھم سُجّدا و قِیاما۝ (سورۃ الفرقان آیۃ ۶۴) اور وہ لوگ جو رات کاٹتے ہیں اپنے ربّ کے آگے سجدہ میں اور کھڑے (ہوکر)۔

عاشق اللہ تبارک و تعالیٰ کی پُکار کا جواب دیتے ہیں

جیسے جیسے رات کی تاریکی بڑھتی ہے ان کا شوق اور طلب بھی بڑھتا ہے۔ اپنے دل کی کھڑکی کو کھول دیتے ہیں۔ دل کے کانوں سے پنبہ نکال دیتے ہیں۔ مجسمۂ انتظار بن جاتے ہیں۔ جیسے ہی یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ پُکار ان کے دل کے کانوں سے ٹکراتی ہے ”ھَل من مستغفر یغفرلہ۔ ھَل من تائب یتاب علیہ۔ ھل من سائل فیعطیٰ۔ ھل من داعٍ فستجاب لہ“ (کنز العمال ص ۴۷۰ جلد ثامن) ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ اسے بخش دیا جائے؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا جس کی توبہ قبول کی جائے؟ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ اسے دیا جائے؟ اور ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے؟

عاشقین لبیک لبیک پکارتے ہیں۔ یا الہ العالمین! ہم تیرے خطاکار گناہگار سرتاپا پُرتقصیر بندے حاضر ہیں حاضر ہیں۔ ہمارے گناہ بخش دیجئے، ہماری دعاؤں کو قبول فرمادیجئے۔ یہ الفاظ کہتے ہوئے ان کی برداشت کے سب بند ٹوٹ جاتے ہیں، ان کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں ہوجاتا ہے، ان کے بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، ان کے جسم کے سب بال کھڑے ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں یہ وقت ہے اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا، اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے کا، اپنے گناہ بخشوانے کا۔ پھر وہ سر سے عمامہ اتار کر اپنا سر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں رکھ دیتے ہیں، پھر گڑگڑا کر یہ مناجات شروع کردیتے ہیں۔

اے بادشاہ! ہماری خطاؤں کو بخش دیجئے۔ بے شک ہم بڑے گناہگار ہیں، لیکن تو بھی تو بخشنے والا ہے۔ یا الہ العالمین! تو اچھائی کرنے والا ہے اور ہم برائی کرنے والے ہیں، اور برائی بھی بے حد و حساب کرنے والے ہیں۔ یا رب العالمین! ہماری زندگی کی کوئی ایسی گھڑی نہیں کہ بغیر گناہ و خطا کے گذری ہو اور کوئی ایسی عبادت بھی نہیں جو ہم نے حضورِ دل سے ادا کی ہو۔ اے ہمارے خالق و مالک! نفس اور شیطان نے ہمیں گمراہ کردیا ہے، اب ہم رحمت و عنایت کا واسطہ دے کر تجھ سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! ہم بجا طور پر تیری رحمت سے مغفرت کے طالب ہیں، کیونکہ تونے ہی فرمایا ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ اے ہمارے اللہ! ہم اس بندہ کی طرح تیرے در پر آئے ہیں جو بھاگ جانے کے بعد پھر اپنے آقا کے دروازہ پر شرمندہ شرمندہ واپس آتا ہے۔ ہم نے اپنی آبرو و عزت کو گناہوں کی کثرت کی وجہ سے مٹی میں ملادیا ہے۔ اے خالقِ ارض و سما! تیری رحمت کے سمندر کا کوئی کنارہ نہیں ہے اور ہمارے گناہ اس سمندر کے سامنے خس و خاشاک سے بھی کمتر حیثیت کے حامل ہیں۔ اور تیری رحمت سے شیطان ہی مایوس ہوتا ہے۔

فرشتے عاشقین کی تلاش میں نکلتے ہیں

فرشتے جو کہ ان عاشقین کے دیدار کے مشتاق ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے امر کے مطابق آسمانوں سے اُتر کر ان کی تلاش میں زمین پر پھیل جاتے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی ایک ان عاشقین کو دیکھ لیتا ہے تو اوروں کو بھی بلاتا ہے۔ سب فرشتے کشاں کشاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس عاشقِ صادق کو اپنے جلوہ میں لے لیتے ہیں۔ بڑھ بڑھ کر اس کے چہرے کا دیدار کرتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کا عاشق نزول رحمت کا منظر دیکھتا ہے اور عنایتوں کی بارشوں کو دیکھتا ہے تو اور بھی زیادہ الحاح و زاری و انکساری سے کام لیتا ہے۔

خداوندا مسلمانم مسلمانی نمی دانم
و لیکن چوں مسلمانم مسلماں دار یا اللہ

اے خدا دعویٰ تو مسلمانی کا ہے لیکن مسلمانی کی حقیقت کو نہیں جانتا، لیکن چونکہ مسلمان ہوں پس مجھے مسلمان رکھ۔

خداوندا گناہگارم گناہِ بے عدد دارم
رہائی دہ ازیں کارم باستغفار یا اللہ

اے خدا میں گناہگار ہوں اور میرے گناہوں کی کوئی حد و شمار بھی نہیں، مجھے ان گناہوں سے استغفار کی بدولت نجات عطا فرما۔

یقیں خود را نمی دانم کہ گبرم یا مسلمانم
نہ در اسلام شایانم نہ در کفار یا اللہ

یقین سے میں اپنے آپ کو نہیں جانتا کہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، نہ تو اسلام (کے دعویٰ کا) مستحق ہوں (کہ میرے اعمال مسلمانوں کے سے نہیں ہیں) اور نہ ہی کفار کے گروہ میں شامل ہونے کا مستحق ہوں (کچھ بھی ہوں پھر بھی مسلمان تو ہوں)۔

نہ دنیا دوست میدارم نہ عقبیٰ را خریدارم
نہ دیگر آرزو دارم بجُز دیدار یا اللہ

نہ دنیا کو دوست رکھتا ہوں اور نہ عقبیٰ کا خریدار ہوں، تیرے دیدار کے سوا میری اور کچھ آرزو نہیں ہے۔

بحقِ آنکہ معبودی محمد را تو بستودی
بہر چیزیکہ خوشنوی دارم دار یا اللہ

تو ہمارا برحق معبود ہے۔ اِس کے صدقہ میں اور محمد صلّی اللہ علیہ ولسم کی تونے تعریف کی ہے، ان کے صدقے میں جس چیز میں تو خوش ہے اس میں رکھ۔

خاکی بندہ کی قلبی وسعت کو دیکھ کر فرشتے محو حیرت ہیں

فرشتے محو حیرت ہیں، ایک طرف عاشق کی آہ زاری، انکساری، اشکوں کی بارانی، پیاس و طلب کی فراوانی، ’ھل من مزید ھل من مزید‘ کی نعرہ زنی، دوسری طرف معشوق محبوب، مطلوب (اللہ تعالیٰ) کی رحمت شفقت عنایت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اور مغفرت بخشش کی فراوانی، عطا و عنایت کی ارزانی۔ جب فرشتے رحمتِ خداوندی کا مؤجزن سمندر دیکھتے ہیں جس کا کوئی کنارہ نہیں تو پُکار اٹھتے ہیں یا الٰہ العالمین یہ تیرا خاکی بندہ جو کہ تنہا و یکتا ہے اس کے لئے اتنی عظیم رحمت جس کی وسعت زمینوں سے بڑھکر، آسمانوں سے زیادہ، عرش و کُرسی بھی اس کو سمانے سے عاجز۔ پھر جب وہ اُس رحمتوں، مغفرتوں کے سمندر کو اُس بندۂ خاکی کے دل میں سماتا ہوا دیکھتے ہیں تو یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ راز بہت گہرا ہے اور ہماری فہم سے بہت اونچا۔

میانِ عاشق و معشوق رمزیست
کرامًا کاتبیں را ہم خبر نیست

عاشق و معشوق کے درمیان ایک ایسی رمز بھی پائی جاتی ہے جس کی خبر کرامًا کاتبین کو بھی نہیں ہوتی۔ اُس عاشق صادق پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمتِ الٰہی اس کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے اور اُس کے دل پر یہ آوازِ خداوندی گونجتی ہے۔ قوموا مغفورا لکم

صاحبِ درد آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی نائب ہوتا ہے

مندرجہ بالا جمیع احوال و مقامات سوز و گداز میں صاحبِ درد صاحبِ عشق کے ساتھ شامل ہوتا ہے، کسی طرح کم نہیں ہوتا۔ بعض وہ امتیازی علامات ہیں جن سے صاحبِ درد منفرد اور بلند تر مقام پر فائز ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ ولایت کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا مقام و شان لئے ہوئے ہوتا ہے، جیسا کہ مشائخ عظام نے فرمایا ہے کہ ولی اپنی جماعت میں اس طرح ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں۔

صاحب درد اپنی ذات سے آگے بھی اور کچھ چاہتا ہے

صاحبِ عشق تو صرف اپنا قرب و وصال چاہتا ہے جبکہ صاحبِ درد خود واصل باللہ ہونے کے بعد جمیع اہلِ ایمان کو اس مقام پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔ عشق و محبت کی چنگاری سب کے دلوں میں روشن کرنا چاہتا ہے۔ رات کو جب صاحبِ درد اپنے محبوب سے راز و نیاز کررہا ہوتا ہے تو اپنی آہوں اور سسکیوں کے دوران جو کچھ مانگتا ہے تو اپنی ذات کے ساتھ اپنے اہلِ خانہ کے لئے، اپنے عزیز و اقارب کے لئے، اپنے پڑوسیوں کے لئے، جمیع اہل ایمان کے لئے بلکہ تمام عالمِ انسانیت کے لئے راہِ ہدایت کا طالب ہوتا ہے۔ جب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل، نماز کا تارک، دنیا کا طالب اور ان پر حرص و ہوس غالب دیکھتا ہے تو خاموش نہیں بیٹھتا بلکہ محبت پیار سے، تقریر واعظ سے، تحریر و تصنیف سے ان کا علاج شروع کردیتا ہے۔ اس فکر میں رات دن ایک کردیتا ہے۔ یہ دیوانگی اس پر صبح و شام طاری ہوجاتی ہے کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے متعلق جب حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر ان (صحابہ کرام علیہم الرضوان) کو تم دیکھتے تو یہ کہتے یہ تو دیوانے ہیں کیونکہ وہ تو اس حدیثِ مبارکہ کا مصداق تھے۔ اُکثروا ذکر اللہ حتیٰ یقولوا مجنون۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ دنیادار، ظاہربین تمہیں دیکھ کر کہیں یہ تو مجنون ہیں۔

میرے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے جب کفارِ مکہ کو حق کی دعوت دی تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و حقانیت کی طرف بلایا مگر بدبخت بدنصیب کفّار مکہ گمراہی پر مُصر رہے، تو میرے آقا صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بہت مغموم و متفکر ہوئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیتِ مبارکہ نازل فرمائی ”انما انت مذکر لست علیھم بمُصیطرٍ“ (سورۃ الغاشیہ) ترجمہ: (اے میرے نبی صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) تم تو نصیحت سنانے والے ہو، تم اُن پر نگہبان نہیں ہو“۔

یہ وہ درد تھا جو کہ میرے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کو طائف کے علاقہ تک لے گیا جہاں کے باسیوں نے آپ (صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے پیغامِ حق کو سننے کے بجائے آنجناب صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر کُتے چھوڑے، پتھر برسائے، لیکن آپ (صلّی اللہ علیہ وسلم) نے پھر بھی ان کے لئے دعا کی۔ اللّٰھم اھد قومی فانھم لا یعلمون۔ اے میرے اللہ میری قوم کو ہدایت فرما کہ یہ (حق کو) نہیں جانتے۔

یہ جذبہ اور دردِ دل تھا جو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کو صفا کی پہاڑی پر لے گیا جہاں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب و عتاب سے ڈرایا مگر ابولہب نے گستاخی کی۔ صاحبِ قلبِ سلیم ہدایت یاب ہوئے مگر بدنصیب محروم رہ گئے۔

صاحب درد اپنے جانشین کو درد و حُزن امانت دیتا ہے

حُزن و ملال، درد و الم یہ وہ نعمت و امانت ہے جو کہ میرے آقا و مولیٰ آنحضرت علیہ من الصلواۃ افضلھا و من التحیات اکملھا سے سینہ بہ سینہ اولیاء اللہ تک پہنچی۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں وارد ہے ”کان النبی صلّی اللہ علیہ وسلم دائم الفکر و مواصل الحزن“ کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ فکرمند رہنے والے اور پے درپے غم برداشت کرنے والے تھے۔ جب بھی یہ سُنا جاتا ہے کہ فلاں ولی نے فلاں کو اپنا جانشین نائب بنادیا اور اس کو دستار یا مصلیٰ عطا فرمادیا، لوگ تو اس کو بڑا آسان اور عزت و مرتبہ کا باعث سمجھتے ہیں، مگر وہ نہیں جانتے کہ اس دستارِ فضیلت کے ایک ایک پیچ میں کتنے غم، حزن اور ملال چھپے ہوئے ہیں اور اس مصلیٰ میں کتنی آہیں، بکائیں، فریادیں اور آنسو پنہاں ہیں اور پھر دن بدن اُن میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے، کمی نہیں آتی۔

واللہ باللہ جو اس غم و حزن، درد و فکر اور آہ و بُکا کی لذّت سے آشنا ہوا اس کو پھر دنیا کے عیش، آرام، مال، اولاد، زمین جائیداد سے کچھ لگاؤ نہیں ہوتا۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے تسلیم و رضا کے خنجر کے نیچے اپنی گردن روزانہ رکھ دیتا ہے اور مُرغِ بِسمل کی طرح تڑپتا اور پھڑکتا ہے۔ پھر فلنحینّہ حیٰوۃً طَیـبۃً (سورۃ النمل، آیۃ ۹۷) ترجمہ: تو ہم اس کو زندگی دیں گے اچھی زندگی۔ ارشادِ ربانی کے مطابق نئی زندگی پاتا ہے۔

کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است

اب عاشق اور صاحبِ درد سر بکف رہتے ہیں، جان و دل قربان کرنے کے بعد کہتے ہیں۔

قیمت خود ہر دو عالم گفتہ ای
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز

ہاں یہ غم عشق کے ہر بوالہوس کو نہیں دیا جاتا۔پروانے کا سوزوگداز، جل مرنے کا جذبہ مگس میں نہیں پایا جاتا۔ اسی مقامِ عشق کو طے کرنے کے لئے ایک عمر چاہیئے، ایک جذبہ و ولولہ چاہیئے۔ اہلِ دل کی نظر اور ان کی محبت و عقیدت چاہیئے۔ جو ان اوصاف سے خالی بوالہوس ہے تو غالب نے اس کیلئے کیا خوب کہا ہے۔

جس کو ہو جان و دل عزیز، تیری گلی میں آئے کیوں

شیخ شرف الدین یحییٰ منیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب وقت کے کامل اکمل شیخ خواجہ نجیب الدین فردوسی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے تو آنجناب نے آپ کو خرقۂ شجرہ عطا فرمایا اور کچھ نصائح بھی لکھ کر رہنمائی کے لیے دیں اور واپس جانے کا حکم فرمایا۔ آپ نے صحبت میں رہنے کی اجازت چاہی، مگر آپ نے فرمایا کہ تمہاری تعلیم و تربیت بارگاہِ رسالت مآب صلّی اللہ علیہ وسلم سے مقدر ہے، تم اپنے وطن جاؤ اور اپنے کام میں مشغول ہوجاؤ۔ بیعت کے وقت کی کیفیت جو آپ کو حاصل ہوئی، آپ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی:

”من چوں خواجہ نجیب پیوستم حزنے در دلِ من نہادہ شد کہ ہر روز آن حذن زیادہ شُد“۔

ترجمہ۔ جب میں خواجہ نجیب (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) سے بیعت ہوا تو ایک غم (حزن) میرے دل میں رکھا گیا جو روز بروز زیادہ ہورہا ہے۔

الٰہی عطا ذرۂ دردِ دل ہو
کہ بے درد مرتا ہے بیمار تیرا

[اوپر]