ڈاؤنلوڈ کریں

 

ایک مبلغ کی سوچ کیا ہونی چاہئے؟

از

حضرت خواجہ محمد طاہر نقشبندی مجددی مدظلہ العالی المعروف محبوب سجن سائیں

 

ہمارے محترم دوست مولیٰنا عبدالغفور صاحب کی شخصیت مبلّغین حضرات کیلئے ایک عمدہ مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ تبلیغی ذوق و شوق تو ان کے خمیر میں شامل معلوم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مانند سیر و سیاحت سے بھی لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

اِس عاجز نے بھی مرشد مربی مہربان نور اللہ مرقدہ کے فرمان سے آپ کی نگرانی میں چند ایک تبلیغی سفر کئے تھے۔

انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ کسی موقع پر تبلیغی اسفار میں ہونیوالے ذاتی تجربات بھی بیان کئے جائیں گے۔

پیشِ نظر مضمون کے عنوان کی مناسبت سے مولیٰنا عبدالغفور صاحب کا بیان کردہ ایک نکتہ قابل غور ہے۔ بقول مولیٰنا صاحب موصوف اگر کسی تبلیغی سفر میں آپ کی غیر معمولی خدمت کی گئی، لذیذ و خوش ذائقہ مطعومات کے ذریعہ آپ کی خاطر تواضع کی گئی اور قیام کے لئے پرتکلف رہائش گاہ کا بھی انتظام کیا گیا۔ علاوہ ازیں بڑی عقیدت و محبت، ذوق و شوق سے آپ کا وعظ بھی سنا گیا، تو سمجھ لو کہ آپ کو بہت ہی کم فائدہ پہنچا۔ اکثر و بیشتر اجر و ثواب صاحبِ دعوت حضرات ہی نے پالیا۔ لیکن اگر کسی جگہ نہ تو قیام و طعام کا انتظام کیا گیا نہ ہی توجہ سے آپ کی نصیحت سنی گئی، تو آپ سمجھو کہ نصف فائدہ حاصل ہوا۔ البتہ اگر کسی مقام پر لوگوں نے آپ کے وعظ و نصیحت سننے سے ہی انکار نہ کیا بلکہ آپ کو وہاں رہنے تک کی اجازت نہ دی گئی تو ایسی صورت میں سمجھو کہ آپ کو کامل و مکمل فائدہ حاصل ہوا، اور ادائے سنتِ نبوی کا اجر بھی آپ کو حاصل ہوا۔

انشاء اللہ تعالیٰ آخری مرحلہ تک نوبت نہیں پہنچے گی۔ لیکن یہ ایک قسم کی ذہنی تیّاری ہے، اور ایک مبلّغ کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ ایک مخلص مبلّغ کے نزدیک کامیابی کا پیمانہ سامعین کی اکثریت، مسحور کن بیان اور واہ واہ یا سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے کی بجائے رضائے باری تعالیٰ اور ثواب دارین ہونا چاہئے۔ اسی قسم کی عُمدہ اور مثبت سوچ رکھنے والے مبلّغین کبھی بھی اپنے آپ کو مایوس اور ناکام نہیں سمجھیں گے۔ ایسے ہی مبلّغ کی آواز میں اخلاص کی آمیزش اور سوز درون کی غیر معمولی قوت، براہِ راست سامعین کے قلوب پر اثر انداز ہوگی۔ اور ان اوصاف کے حامل افراد ہی کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ کے مرتبہ پر فائز اور عنداللہ اجرِ عظیم کے مستحق ہوں گے۔ دورِ حاضر میں اگر کسی فرد سے ایک عمدہ و کامیاب مبلّغ کی اوصاف دریافت کی جائیں گی، تو جوابًا عالمِ باعمل، متقی پرہیزگار، بااخلاص، باکردار بتانے کی بجائے خوش الحان، فصیح اللّسان، مناظرہ کا ماہر، اور مخالفین کے لئے موت کا پیام سنایا جائیگا۔

بلاشبہ دورِ حاضر کے سامعین بہترین اور لاجواب تقریر اسی خطاب کو سمجھتے ہیں جس میں مخالفین کیلئے دندان شکن جواب موجود ہو، ان کا مذاق اڑایا گیا ہو، بہتان تراشی اور غیبت کی گئی ہو۔

اگر مقرر نے چٹ پٹے لطیفے سناکر ہنسنے پر مجبور کیا تو گویا خطاب میں چار چاند لگ گئے۔ دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس قسم کی تقاریر سننے کے بعد سامعین کے دلوں میں احساسِ ندامت، اور اعمال صالحہ کی طرف رغبت و میلان پیدا ہونے کی بجائے صرف اس قسم کے تبصرے سننے کو ملیں گے کہ آج علّامہ صاحب نے فلاں ۔۔۔۔ کے ناک میں دَم کردیا، اس کی عزت خاک میں ملادی وغیرہ وغیرہ۔

غور و فکر کا مقام ہے کہ آخر اس قسم کی غلط سوچ و فکر کا باعث کون ہے؟ خود علماء یا عوام النّاس؟ مقررین حضرات یا سامعین کرام؟ اس سے بڑھ کر کچھ لکھنے کی طاقت کم از کم اس مسکین کو نہیں ہے۔

اگر سچ بات کہتا ہوں مزا الفت کا جاتا ہے
اگر خاموش رہتا ہوں کلیجہ منہ کو آتا ہے

علماء کرام کی باہمی رسہ کشی، اختلاف و کھینچا تانی کی بدولت ایک تیسرے گروہ (شیطان) کو حضرت ملّا نصیر الدین کے لطیفہ کی مانند عامۃ المسلمین کے ایمان لُوٹنے کا موقع مِل گیا۔

پرانے زمانے کے بزرگوں کے یہاں یہ لطیفہ بہت مشہور ہے کہ ملّا نصیر الدین صاحب ایک غریب مفلس آدمی تھے۔ جاڑے کی سردیوں سے بچنے کے لئے ایک کمبل خریدنے کا ارادہ کیا اور دو دو، چار چار پیسے اسی مقصد کے لئے جمع کرتے رہے کہ اس سال کمبل خریدوں گا۔ مطلوبہ نقدی جمع ہوجانے پر بازار سے جاکر ایک کمبل خرید کر گھر لائے۔ معلوم ہوجانے پر محلے کے تین آدمیوں نے ملا نصیر الدین کے پڑوس کی گلی میں آکر لڑنے جھگڑنے لگے۔ ملا صاحب غیر معمولی شور و غوغا سن کر سو نہ سکے۔ جیسے ہی کمبل اوڑھے سورہے تھے، کمبل اوڑھے صلح کرانے کی غرض سے ان کے پاس پہنچے۔ دیکھا دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں، تیسرا ایک شخص ان کے قریب خاموش کھڑا ہے۔ ملّا نے کمبل اس کے ہاتھ میں تھمادیا تاکہ آسانی سے ان کو ایک دوسرے سے دور کرکے جھگڑا ختم کرادیں۔ جیسے ہی یہ حضرت مصالحت کا فریضہ انجام دینے میں مشغول ہوگئے، تجویز کے مطا بق تیسرا شخص کمبل لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ ملّا نے دیکھ لیا اور چیخ کر کہا، خدا کے بندے میرا کمبل! میرا کمبل تو دیکر جاؤ!! یہ سنکر دونوں اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور تم ملّا صاحب کا کمبل نہیں لے جاسکتے، پکڑو، پکڑو، کہتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ ملّا صاحب بڑے خوش تھے کہ یہ دونوں بلا تاخیر میرا کمبل چھڑا کر لائیں گے۔ کچھ دیر تک انتظار کے بعد سمجھ گئے کہ یہ تیسرا شخص بھی ان ہی کا ساتھی تھا اور یہ دونوں بھی اسی کے ہمنوا تھے نہ کہ میرے خیرخواہ۔ چنانچہ بآوازِ بلند اسی وقت پکار کر کہنے لگے: خدا کے بندوں اگر تمہیں میرا کمبل ہی چاہئے تھا تو ایک دوسرے کو گالیاں تو نہ بکتے، ایک دوسرے سے لڑتے تو نہیں، بس مجھے کہدیتے ملّا نصیر الدین یہ کمبل ہمیں دیدیں، تو میں دے دیتا۔ اتنے شور شرابہ کی آخر کیا ضرورت تھی؟

عملی تبلیغ

مبلغین کے قول میں تضاد بھی عوام کی عملی کمزوری اور بے راہ روی کا ایک اہم باعث ہے۔ ایک مبلغ جس طرح عوام الناس تک پیغامِ حق سنانے کے لئے اپنا قیمتی وقت صرف کرتا ہے، اسی طرح اس کو چاہئے کہ اپنی اصلاح کے لئے بھی وقت بچائے اور اس اہم فریضہ سے کبھی بھی غافل نہ ہو۔

یہ حقیقت ہے کہ دورِ حاضر کے مبلغین بھی اگر زورِ خطابت اور طویل بیانات پر اکتفا کرنے کی بجائے اپنے اعمال کی اصلاح اور قلب کی اصلاح کی طرف پوری توجہ کریں تو انشآء اللہ تعالیٰ ان کی تبلیغی جدّوجہد کے انقلابی نتائج برآمد ہوں گے۔ اس ضمن میں ایک مفید واقعہ پیش خدمت ہے۔ حاجی محمد علی بوزدار صاحب میرے مرشد و مربّی کے نہایت پیارے خلیفہ ہیں۔ جنون کی حد تک تبلیغی شوق رکھتے ہیں۔ آپ کی محنت و جدوجہد دیکھ کر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔خلیفہ صاحب بتایا کرتے ہیں کہ جب حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ سعادت حج کے سلسلہ میں حرمین شریفین تشریف لے جارہے تھے، میں بھی کراچی تک آپ کے ساتھ شریک سفر رہا۔ آپ کے کراچی سے رخصت ہونے کے بعد، میں کراچی کے قرب و جوار میں تبلیغ کے لئے نکلا اور آپکی واپسی تک مسلسل تبلیغ میں مصروف رہا۔ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی واپسی پر کراچی جاکر استقبال کیا اور اس درمیان ایک دن کیلئے بھی گھر نہیں گیا۔ واضح رہے کہ اس بابرکت سفر میں حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کو تقریبًا ڈھائی مہینے کا عرصہ لگا تھا۔ اس واقعہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حاجی صاحب موصوف کو کس قدر تبلیغی شوق ہے۔

ایک مرتبہ حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں حاجی صاحب نے اپنا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ میں اپنے والد صاحب کو آنکھوں کے آپریشن کے سلسلہ میں شجاع آباد لے گیا۔ حسبِ معمول وہاں بھی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ قریبی جامع مسجد کے پیش امام صاحب سے ملاقات کی۔ میرا پیغام سُن کر وہ بڑے متاثر ہوئے اور حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے بھی تیار ہوگئے۔ مولانا صاحب سے دوستی کی بنا پر مجھے مسجد میں تبلیغ کرنے کا موقع مل گیا۔ اس درمیان مولانا صاحب میرے افعال و اعمال کا جائزہ لیتے رہے جس سے میں بے خبر تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ جیسے ہی میں ان سے ملاقات کے ارادہ سے مسجد شریف میں داخل ہوا، بے خبری میں، میں نے خلافِ سنت پہلے بایاں پاؤں اندر مسجد میں داخل کیا پھر داہنا۔ مولانا صاحب مسجد میں بیٹھے غور سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ خلافِ سنت مسجد میں داخل ہوتے دیکھ کر بآوازِ بلند مجھے غلطی پر متنبہ کیا اور کہا “دوسروں کو تو اتباعِ سنت کی تلقین کرتے ہو، اور خود اس کے خلاف عمل کرتے ہو۔” بس میری یہ غلطی ان کی دوری کا باعث بنی۔ اس کے بعد وہ میری کوئی بات سننے کیلئے آمادہ نہ ہوئے، بدظنّ ہی رہے۔

حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ یہ واقعہ سن کر غیر معمولی طور پر متاثر ہوئے۔ اپنی عام تقاریر میں بالخصوص خلفاء کرام کو نصیحت فرماتے ہوئے یہ واقعہ بکثرت بیان فرماتے تھے۔ قول و فعل میں تضاد، والدین، اساتذہ، سیاستدان، حکمران حضرات خواہ عوام الناس میں موجود ہے۔ افسوس! صد افسوس! کہ اس قدر بڑے نقصان کی تلافی کے بجائے خود اس کا احساس تک نہیں رہتا۔

بعض غیر مسلم اسکالر اس حقیقت کا اعتراف و اقرار کرنے کے باوجود کہ اسلام ایک بہترین مذہب ہے جس میں ایک انسان کے لئے کامیاب و کامران، اطمینان بخش زندگی بسر کرنے کا مکمل لائحہ عمل موجود ہے، پھر بھی ہم مسلمانوں کے کردار سے قطعًا مطمئن نہیں ہیں۔

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا افسانہ کیا
کہتی ہے تجھے خلقِ خدا غائبانہ کیا

حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک انگریز اسکالر نے تمام مذاہبِ عالم کا مطالعہ کرنے کے بعد واشگاف الفاظ میں اس حقیقت کا اعلان کردیا کہ دنیا بھر کے مذاہب میں سب سے بہتر مذہب اسلام ہے۔ لیکن میں مشکور ہوں کہ کسی مسلمان کے گھر پیدا نہیں ہوا۔ اس لئے کہ اگر کسی مسلمان کے گھر پیدا ہوتا تو شاید ایک روایتی مسلمان کی طرح اسلامی تعلیمات کے خلاف عمل کرتا، جھوٹ، دھوکہ دہی، رشوت، قتل و خون ریزی، ڈاکہ زنی وغیرہ سے نہ کتراتا۔ بلاشبہ ان اوصاف سے متصف افراد کو کامیاب اور فلاح والا نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال جب تک ایک مبلغ کے قول و فعل میں یکسانیت نہیں ہوگی وہ دوسروں کو نیک اعمال و اخلاق حسنہ کی طرف کیسے مائل کرسکے گا۔

لالچ طمع سے بچنا

ایک مبلّغ جب تک بے طمع اور بے لوث نہیں بن جاتا اس وقت تک اس کی آواز بے اثر رہے گی، اور اس کی زندگی اوروں کے لئے قابلِ تقلید نہیں بن سکتی۔
مبلّغین حضرات کے لئے سب سے عمدہ مثال انبیاء کرام علیہم السّلام اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیاتِ طیبات ہے۔ قرآن مجید کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السّلام نے کفار کو شرک و گمراہی ترک کرکے راہِ حق اختیار کرنے کی تلقین کی تو دنیادار کفار نے سب سے پہلے ان عظیم انسانوں کو دنیا کی لالچ میں پھنسا کر تبلیغ حق سے روکنے کی کوشش کی۔

حضرت نوح علیہ السّلام نے جب اپنی قوم سے یہ خطاب فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی پوجا پاٹ نہ کرو، تحقیق میں تمہارے اوپر آنے والے سخت دن (قیامت) کے عذاب سے ڈراتا ہوں۔ (القرآن) تو جوابًا دنیادار کافر کہنے لگے “اے نوح! آپ ہماری طرح کے ہی ایک انسان ہیں، اور آپ کے پیرو بھی غریب، مسکین قسم کے پس ماندہ افراد ہیں، مال و ریاست کے لحاظ سے بھی تجھے اپنے سے زیادہ نہیں پاتے”۔ اس کے پس منظر میں ان کا مقصد یہ تھا کہ غربت و مسکینی کے طعنے دیکر ہم حضرت نوح علیہ السّلام کو دنیا کی طرف مائل کرلیں گے۔ دنیا کی لالچ و محبت میں آپ کو پھنسا لیں گے۔ لیکن اللہ عزوجل کے اس پیارے پیغمبر نے واضح الفاظ میں برملا یہ اعلان فرمایا کہ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالًا اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللہِ الاٰیہ (ھود)۔ یعنی مجھے تمہاری ملکیت و دولت میں کوئی لالچ نہیں ہے، بس میرا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے۔ صرف حضرت نوح علیہ السّلام ہی نہیں، اکثر انبیاء بنی اسرائیل علیہم السّلام کو اس مرحلہ سے گذرنا پڑا اور تمام حضرات نے یہی اِن اجری الّا عَلی اللہ کا نعرہ بلند کرکےان کے منہ بند کردیئے۔

ہمارے آقا و مولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جو کفار مکہ نے حضرت ابوطالب کے ذریعے یہ پیغام بھیجا۔

(۱) اگر آپ قوم کا سردار بننا چاہتے ہیں تو ہم سب قریش آپ کو سردار ماننے کے لئے تیار ہیں۔

(۲) اگر مال و دولت کی خواہش ہو تو تمہارے قدموں میں دولت کے انبار لگانے کو تیار ہیں۔

(۳) اگر کسی خوبصورت عورت سے شادی چاہتے ہیں تو جس عورت کے بارے میں چاہیں گے، ہم شادی کرادیں گے۔

کس قدر شرمناک منصوبہ تھا جس کا دارومدار طمع و لالچ پر رکھا گیا تھا۔ دیکھا جائے تو دنیا میں انسان ان تینوں چیزوں کے حصول کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کئے ہوئے ہے۔ اور یہ سب بلاتکلف آپ کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں، صرف ایک شرط کے عوض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوتِ توحید کو ترک کردیں۔

میں لاکھ بار آپ کے مبارک قدموں پر قربان کہ ایسے موقع پر آپ ڈگمگائے نہیں، بلکہ واضح اور واشگاف الفاظ میں ارشاد فرمایا: اے میرے پیارے چچا! آپ کفّار مکّہ کو بتادیں کہ یہ جو کچھ تم لوگ دینا چاہتے ہو یہ تو سب میری نظر میں ہیچ ہیں۔ لیکن اگر تم میری ایک ہتھیلی پر آسمان کا سورج لاکر رکھ دیں اور دوسری ہتھیلی پر چاند رکھ کر مجھے توحید کے پیغام سے باز رہنے کی پیشکش کریں تو بھی خدا کی قسم میں اس سے باز نہیں آؤں گا۔ جب تک میری جان میں جان ہے یہ پیغام پہنچاتا رہوں گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ واقعہ سے آپ کے اخلاص، ثابت قدمی اور اپنے بنیادی مشن سے سچائی عیاں ہوتی ہے۔ حالانکہ اگر آپ چاہتے تو کسی قدر مفاہمانہ روش اختیار کرسکتے تھے، ان کو بلاکر بالمشافہ بات چیت کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرسکتے تھے۔

لیکن آپ کا طور طریقہ، حال و روش بالکل دو ٹوک صاف اور کھرا رہا۔ آپ کے اس عمل سے مبلغین کیلئے ایک عمدہ عملی درس سامنے آتا ہے کہ مبلغین کو چاہئے کہ وہ ہوشیار رہیں۔ اگر کسی موقع پر دنیوی لالچ دیکر کسی قسم کی نرم پالیسی اپنانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ دنیاوی چمک دمک سے مرعوب و متاثر اور مائل ہونے کی بجائے اس کو اپنے لئے سمّ قاتل سمجھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا طور طریقہ واضح رکھے۔

ہوسکتا ہے کہ اس موقع پر کوئی یہ سوچے کہ اس قسم کی استقامت تو حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے، ہم کون ہوتے ہیں کہ اس طرح استقامت کرسکیں۔ لیکن ایسا سوچنا اور سمجھنا کسی طرح درست نہیں۔ دورِ حاضر میں بھی کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جو کہ ہمارے لئے قابل تقلید مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فقیر محمد الیاس شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قائم کردہ مثالی دینی مرکز دین پور شریف کے باسی تھے۔ واضح رہے کہ یہ مرکز حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی تبلیغی محنت سے وجود میں آیا۔ اس مرکز کے بارے میں حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: میرے پیر و مرشد حضرت قریشی مسکین پوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایک ایسی بستی قائم کریں جس میں آکر بسنے والے ایسے لوگ ہوں جن کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو، اپنا گھر، وطن، عزیز و اقارب محض اس تمنّا کے تحت چھوڑ کر آجائیں کہ اہل ذکر فقراء سے مل کر صبح و شام اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں گے، شریعت پر عمل کریں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا کل اتباع کریں گے، ان کے دل میں اور کسی قسم کی طلب و تمنّا نہ ہو۔ آپ فرماتے تھے کہ میرے مرشد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ خواب دریا کے کنارے آباد کچّے میں رہنے والے ان غریب و مسکین فقراء نے پورا کر دکھایا۔ سبحان اللہ

فقیر محمد الیاس صاحب کی زوجہ نہایت درجہ پارسا نیک صالحہ خاتون تھیں۔ ان کا انتقال سانپ کے ڈسنے سے ہوا تھا۔ تدفین کے بعد کئی دن تک اس پارسا خاتون کی قبر سے ذکر “اللہ، اللہ” کی آواز سنائی دیتی رہی۔ یہ گواہی قبرستان کے مجاور نے دی۔ (سیرت ولئ کامل میں یہ واقعہ تفصیل سے تحریر شدہ ہے)

فقیر محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے زوجہ کے انتقال کے بعد اس کی سونے کی چوڑیاں ازروئے عقیدت و محبت حضرت سوہنا سائیں قدس سرّہ کی خدمت میں تحفۃً پیش کیں۔ آپ لے کر گھر تشریف لائے۔ والدہ صاحبہ فرما رہی تھیں کہ میں نے سوچا آپ یقینًا یہ چوڑیاں مجھے عنایت فرمائیں گے، اس بنا پر میں نے آپ سے عرض بھی کردیا لیکن آپ نے دینے سے انکار کردیا اور وہ چوڑیاں اپنے پیر و مرشد مربّی مہربان حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کردیں۔

حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے تھے جب مجھے خلافت عطا کی گئی تو میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مجھے تبلیغ کے لئے سندھ جانے کی اجازت دی جائے تو بہتر۔ بالآخر حضور مسکین پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی ایمانی فراست سے میرے قلبی رجحان کو بھانپ لیا اور ازخود مجھے تبلیغ کے لئے سندھ جانے کا امر فرمایا۔

شروع میں آپ سکھر کے قریبی علاقے ڈہرکی میں تبلیغ کرنے گئے۔ آپ کی محنت و اخلاص کی بدولت مذکورہ علاقہ میں بکثرت مخلوقِ خدا کو دینی فائدہ حاصل ہوا، بہت سارے امیر و دنیادار آدمی بھی طریقۂ عالیہ میں داخل ہوئے۔ آپ فرماتے تھے کہ ان دنوں جو بھی طریقہ عالیہ میں داخل ہوتا تھا فورًا اس پر وجد و جذبہ کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ بالخصوص مراقبہ کرتے وقت تو کوئی بھی آدمی وجد سے خالی نہیں رہتا تھا۔

لیکن بعض دنیادار آدمی ایسے بھی تھے جو کہ وجد سے خائف رہتے تھے اور اپنی جہالت کی بِنا پر کہتے تھے کہ حضور! ہمارے مکانات دومنزلہ ہیں، اگر بالائی منزل پر جذبہ طاری ہوجائے اور ہم نیچے گِر جائیں تو ہمارے بچے یتیم ہوجائیں گے، وغیرہ۔۔۔ بعض افراد تو یہاں تک جذبہ سے بھاگتے تھے کہ جب مراقبہ شروع ہوجاتا اور فقراء منہ پر کپڑا ڈال کر مراقب ہوجاتے تو یہ ہاتھ جوڑ کر مجذوب فقراء کو تکتے رہتے اور عرض و معروض کرتے کہ ہم جذبہ سے محفوظ رہیں۔

بالآخر آپ نے یہ صورتحال اپنے پیر و مرشد حضرت قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں تفصیل سے عرض کردیا اور آپ کو ان لوگوں کی بے قدری کا بے انتہا دکھ اور افسوس لاحق ہوا اور صاف صاف ارشاد فرمایا، یہ لوگ بے قدرے جاہل ہیں، قلبی ذکر کوئی باسی مچھلی تو ہے نہیں کہ ان پر مسلّط کیا جائے۔ آپ ان بے قدروں کو چھوڑدیں، تبلیغ کے لئے کسی اور علاقہ کی طرف چلے جائیں۔ آپ کے اس واقعہ سے استغناء اور لاطمعی کا غیر معمولی درس مل رہا ہے۔

ایک اور واقعہ: حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ ایک فقیر کی دعوت پر تشریف فرما ہوئے اور آپ کے ہمراہ کچھ فقراء بھی تھے۔ صاحبِ دعوت فقیر کی مذکورہ شہر کے بازار میں دوکان تھی۔ چنانچہ حضور کے رفقاء میں سے ایک فقیر نے اس فقیر کی دوکان سے کپڑے دھونے کا صابن طلب کیا۔ صاحبِ دعوت مخلص محبت والے فقیر تھے اور ازخود دوسرے فقراء کے لئے بھی صابن لائے اور مفت تقسیم کئے۔ جب حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو مذکورہ فقیر کے سوال کا علم ہوا، اسے بلاکر سخت ناراضگی کا اظہار فرمانے کے ساتھ ساتھ اس کو جماعت سے نکل جانے کا امر فرمایا۔ آپ نے فرمایا کیا تجھے صابن لینے کے لئے پوری بازار میں فقیر کی دوکان نظر آئی؟ کیا دوسری دوکان سے صابن نہیں خریدا جاسکتا تھا؟ تو صاحبِ دعوت کی دوکان پر اس ارادہ لالچ اور طمع سے گیا کہ صابن مفت مل جائے گا؟

الغرض اصرار کرکے دوکاندار فقیر کو صابن کا معاوضہ دینے کے بعد فقیر کی ندامت اور پشماونی دیکھ کر آپ نے معاف فرمادیا۔

اخلاص نیت

عمل کی صورت بنانے اور سنوارنے سے زیادہ اہم چیز اپنے ارادے اور نیت کو پاک و صاف رکھنا ہے۔ جبکہ ہم لوگ اس شعبہ کی حقیقت سے بہت ہی کم واقف ہیں۔
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے طویل اور لمبے عمل سے وہ مختصر سا تھوڑا عمل زیادہ شرف و شان کا حامل ہے جس میں اخلاص اور للّٰہیت زیادہ پایا جاتا ہو۔

آج کل تبلیغ اسلام کے لئے بڑے بڑے قافلے اور گروہ نکلتے ہیں اور ان کو یہ تو بتادیا جاتا ہے کہ اس طریقے سے تمہیں نور ہدایت حاصل ہوجائے گا اور اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے کافی دروس و دلائل بھی دیئے جاتے ہیں، لیکن اخلاصِ نیت اور اصلاح احوال کے متعلق کم ہی واقف کیا جاتا ہے۔ نتیجۃً ایسے لوگ اوروں کی اصلاح کیا کریں گےجنہوں نے ابھی تک اپنے احوالِ واردات درست کرنے کی کوشش نہیں کی ہوتی۔

ایک مبلغ کیلئے ضروری ہے کہ تبلیغ کے لئے نکلنے سے پہلے اپنے احوال و ارادات کی اصلاح کے لئے کسی مردِ کامل کی صحبت میں کچھ دن گذارے۔ ایسا کرکے ہی وہ اپنے آپ کو باطنی بڑے فتنوں سے محفوظ رکھ سکے گا۔ نہیں تو کم از کم ایسے فتنوں سے واقف تو ضرور ہوجائے گا، جیسے تکبر، عجب، حسد وغیرہ۔

دورِ حاضر میں عمل و عبادت کی کثرت پر تو ہمارا کافی زور ہوتا ہے۔ لیکن مذکورہ امراض کی طرف کوئی توجہ نہیں جو در پردہ ہمارے اعمال و عبادت کا صفایا کررہے ہوتے ہیں۔ احیاء علوم الدین میں حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے علم الفقہ کے ساتھ ساتھ علم طریق الآخرۃ کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ بلکہ علم طریق الآخرۃ کو تمام علوم کی غرض و غایت قرار دی ہے۔ چنانچہ آپ نے علم طریق الآخرۃ کی دو اقسام بیان فرمائیں۔ (۱) علم المکاشفۃ، (۲) علم المعاملۃ۔ ان میں سے قسم اوّل کے متعلق تحریر فرمایا۔ وَ ہُوَ عِلْمُ الْبَاطِنِ وَ ذَالِکَ غَایَۃُ الْعُلُوْمِ (علم مکاشفہ ہی علم باطن ہے اور یہی تمام علوم کی غرض و غایت ہے) ذرا ہی آگے بیان فرماتے ہیں:

جس کو علمِ باطن سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا اس کے خاتمہ برے ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس علم کا کم سے کم حصّہ یہ ہے کہ اس علم کی تصدیق کی جائے اور جو حضرات اس علم کے حامل ہیں ان کو سچّا مانا جائے۔ فرماتے ہیں یہی علم صدیقین اور مقربین کا علم ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا حضرت ابابکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق ارشاد فرمایا مَا فُضَلَ اَبُوْ بَکْرٍ النَّاسَ بِكَثْرَۃِ صَلوٰۃٍ وَّ لَا بِکَثْرَۃِ صِیَامِ (الحدیث) ترجمہ: حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دوسرے لوگوں پر جو فضیلت عنداللہ حاصل ہے وہ نمازوں کی کثرت اور روزوں کی کثرت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوا۔ آگے فرماتے ہیں وَلٰکِنْ بِشَیْءٍ وُقِّرَ فِیْ صَدْرِہٖ بلکہ اس عظیم چیز کی وجہ سے ہے جو آپ کے سینہ میں رکھی گئی ہے۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ وہی جوہر نفیس اور درّ مکنون (پوشیدہ موتی) ہے جس کو تلاش کرکے پانے کی تمنّا تیرے وجود میں ہونی چاہئے۔ آگے فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سانحۂ وفات کے ہزاروں کی تعداد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم موجود تھے جن کی تعریف وقتًا فوقتًا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے رہے۔ اگر تو ان تمام کے احوال پر غور کرکے دیکھے گا تو تجھے وہ تمام کے تمام اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے (علماء باللہ) ملیں گے۔ ان میں کوئی ایک بھی ایسا صحابی نہیں ملتا جو حسنِ کلام کے فن سے واقف ہو۔ چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسے بھی تھے جو فتویٰ کا کام کیا کرتے تھے۔ لیکن اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے آپ کو اس ذمّہ داری سے آزاد رکھتے آئے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اگر کوئی سائل فتویٰ یا فیصلہ کے لئے حاضر ہوتا تھا تو آپ اس کو فرماتے تھے کہ فلاں امیر کے پاس جاؤ جس نے اپنی گردن میں ایسے امور کا بوجھ رکھا ہے۔ جس میں آپ کا اس طرف اشارہ ہوتا تھا کہ فیصلے اور فتاویٰ اور احکام کے اجراء کا کام سلطنت و حکومت کی ذمّہ داریوں میں سے ہے۔

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ آگے فرماتے ہیں کہ جب سیّدنا حضرت امیر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ علم کے دس حصوں میں سے نو حصے آج ختم ہوچکے۔ اس پر حاضرین نے عرض کیا حضور یہ آپ کیسے فرما رہے ہیں، جبکہ اب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ کرام ہمارے یہاں موجود ہیں۔ جوابًا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا اس علم سے میرا مقصود علم الاحکام اور علم الفتاویٰ نہیں بلکہ علم باللہ مقصود تھا۔

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کیا تیرے خیال میں جس علم کا ذکر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ فصاحت کلام اور مناظرہ کا علم ہے؟ کہ تیرا شوق ان علوم کے حاصل کرنے کی خاطر تمام زیادہ ہے۔ تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تو ان علوم کے حاصل کرنے کا شوق نہیں رکھتا جس کے دس حصّوں میں سے نو حصّے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے وصال کے ساتھ ختم ہوگئے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ کسی شخص نے قرآن مجید میں دو آیتوں کے درمیان تعارض کے بارے میں دریافت کیا تو آپ اس غیر ضروری بحث و مناظرہ سے اس قدر رنج ہوئے کہ سائل کو درّہ مارا اور دوسرے لوگوں کو اس قسم کے مناظروں سے منع فرمایا۔

یہاں پر تو یہ سوال کرسکتا ہے کہ علماء کے لقب سے زیادہ مشہور تو فقیہ اور متکلم ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عنداللہ جن اسباب کی وجہ سے عوام الناس کے یہاں شہرت ملتی ہے وہ بھی مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھئے حضرت ابابکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عوام الناس کے یہاں شہرت بحیثیت خلیفۃ المسلمین ہے جبکہ عنداللہ ان کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے تھی جو آپ کے سینہ میں رکھی گئی تھی۔ کما ورد فی الحدیث

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہرت تو آپ کی اعلیٰ ذہانت اور سیاست کی وجہ سے تھی لیکن عنداللہ آپ کی فضیلت اس علم کے سبب تھی جس کے نو حصّے آپ کی وفات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

علم مُکاشفہ اور علم مُعاملہ کی مختصر تعریف

علم مکاشفہ ایک ایسے نور کا نام ہے جو انسان کے قلب میں ظاہر ہوتا ہے جب قلب صفاتِ مذمومہ سے پاک و صاف بن جاتا ہے۔

اسی نور کے حصول کے بعد کئی ایسی حقیقتیں منکشف ہوجاتی ہیں جن کے نام تو پہلے بھی سنے ہوتے ہیں لیکن ان کی حقیقت اور وضاحت سے آدمی انجان ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات و معرفت، صفاتِ باری تعالیٰ کا علم، وحی، ملائکہ، شیطان، جنت اور دوزخ کے حقائق وغیرہ۔

علم معاملہ قلب کے احوال کے علم کا نام ہے۔ قلب کے مختلف حالات دو اقسام پر تقسیم ہوتے ہیں۔ ۱۔ وہ حالات جو بہتر اور پسندیدہ ہیں جیسے صبر، شکر، خوف، رجاء، رضا بالقضاء، زہد، تقویٰ وغیرہ۔ ۲۔ وہ حالات جو ناپسندیدہ اور مذموم ہیں، جیسے تکبّر، ریا، حسد، طلب علوّ، اپنی تعریف سننے کا شوق وغیرہ۔

مذکورہ بالا علوم سے علماء ظاہر اور عوام الناس ناواقف ہیں۔ یہ علوم علماء باطن، صاحبِ دل حضرات کو حاصل ہوتے ہیں۔ متقدمین ماسلف علماء اسی وجہ سے علماء باطن، صاحبِ دل حضرات کی فضیلت اور علوّ شان کا نہ صرف یہ کہ اقرار کرتے تھے بلکہ ان کی صحبت کو اپنے لئے مفید، کارآمد اور لازمی سمجھتے تھے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق یہ روایت معتبر کتب میں مذکور ہے کہ آپ حضرت شیبان راعی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایسے مؤدب انداز میں بیٹھتے تھے جیسے ایک کم سِن لڑکا مدرسہ میں اپنے استاد کے سامنے بیٹھتا ہے۔ حضرت شیبان رحمۃ اللہ علیہ جنگل میں جانور چراتے تھے۔ اس کے باوجود حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی خدمت میں تمام علوم بھلاکر ہی حاضر ہوتے تھے اور آپ سے دینی مسائل دریافت کرتے تھے کہ حضور فلاں مسئلہ کس طرح ہوگا، وغیرہ۔

بعض لوگ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے کہتے تھے کہ حضور آپ جیسے بے بدل عالم اور محدّث ایک بدوی سے علم حاصل کرتا ہے؟ تو آپ جوابًا ارشاد فرماتے تھے کہ حضرت شیبان رحمۃ اللہ علیہ نے وہ علم (علم طریق الآخرۃ) حاصل کر رکھا ہے جس سے ہم بے علم و بے خبر ہیں۔

تزکیۂ نفس اور تعلیم کتاب، مبلغ کی دو اہم ضروریات

میرا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ مبلّغ کے لئے صرف تزکیۂ نفس کافی ہے اور اس کو علمِ شریعت کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی مضمون میں پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں سے چند مثالیں پیش کی گئی تھیں۔ اسی طرح جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارکہ کو ایک مبلغ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے تین مقاصد لے کر مبعوث ہوئے جیسے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ۔

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے مؤمنین پر یہ احسان فرمایا کہ انہیں میں سے رسول کو مبعوث فرمایا، تاکہ ان کے اوپر اس (اللہ) کی آیات کی تلاوت کرے اور ان کے نفس کا تزکیہ کرے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف قرآنی آیات کی تلاوت کرکے سنائی بلکہ کتاب اللہ اور حکمتِ ربّانی کی تعلیم بھی فرمائی۔ کتاب اللہ اور حکمتِ ربانی سے مراد شریعت ہی ہے۔ یعنی آپ انسانوں کو حکمِ خداوندی کے مطابق نیک باتوں کا امر فرماتے رہے۔ جیسے نماز پڑھنا، زکوٰۃ ادا کرنا، روزے رکھنا، حج ادا کرنا، والدین کے حقوق کی رعایت رکھنا، ان کی خدمت کرنا، والدین کے علاوہ اور تمام عباداللہ کے حقوق کا خیال رکھنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ناپسندیدہ اور خراب باتوں سے روکتے رہے، جیسے شرک، قتل، شراب، چوری، زنا، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا وغیرہ۔ یہ دونوں پہلو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، تعلیم کتاب و حکمت میں شامل ہیں۔ تلاوت آیاتِ قرآنی اور تعلیم کتاب و حکمت کے علاوہ آپ کی بعثت کا ایک اور مقصد نفوسِ انسانی کا تزکیہ بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا دو اہم فریضے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کے نفوس سے خراب اوصاف اور غیر اللہ کی محبت کو اپنی نگاہِ کرم اور صحبت کے اثر کے ذریعہ پاک اور صاف بنایا۔

آپ کی صحبت اور محبت کے طفیل مکّہ اور مدینہ زادہما اللہ شرفًا و تعظیمًا کے رہنے والوں کو صحابہ جیسا عظیم لقب ملا اور یہی لقب ان کا وجہ امتیاز بنا۔ اور اسی لقب سے آج ان کو یاد کیا جاتا ہے۔ بے شک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے صدقے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ایسی بلندیوں پر فائز ہوئے کہ دنیا کا کوئی اور عالم ان کی خاکِ پاء کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔

بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو فرائض اور ذمیداریاں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے لے کر دنیا کی طرف مبعوث ہوئے، آپ کی امت کو بھی اللہ تعالیٰ نے ان فرائض اور ذمّے داریوں کو پورا کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعاون کرنے کا حکم فرمایا۔ دوسرے لفظوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت اور نیابت جیسا عظیم شرف امت کو عطا ہوا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّتٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔

ترجمہ: تم بہترین امت میں سے ہو جو ظاہر کی گئی ہے لوگوں کی ہدایت و بھلائی کے لئے (سورۃ آل عمران، رکوع ۱۱، پارہ ۴)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ امّت محمّدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسّلام کا امتیاز تبلیغ ہے۔ آنحضرت سے قبل تبلیغ فقط انبیاء علیہم السّلام کی ذمّہ داری تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت کو یہ امتیاز عظیم اور اعزاز عطا فرمایا تاکہ وہ انبیاء علیہم السّلام والا منصب سنبھالیں یعنی تبلیغ کریں۔

دوسری جگہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَلَتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (سورۃ آل عمران، رکوع ۱۰ پارہ ۴)

ترجمہ: اور ضرور ہونی چاہئے تم میں سے ایک جماعت جو بُلایا کرے نیکی کی طرف اور روکا کرے بدی سے اور یہی لوگ کامیاب و کامران ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ تبلیغ اس امت کے لئے ایک امتیاز اور اعزاز کے ساتھ ساتھ اہم فریضہ بھی ہے۔ اگر پوری امت اس فریضہ کی ادائیگی سے غافل اور لاپرواہ رہے گی تو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے ہاں جوابدہ ہوگی۔ پوری امت میں ایک ایسی جماعت ہونا ضروری ہے جو پورے عالمِ انسانیت کو دعوتِ خیر دینے کے ساتھ ساتھ امّتِ مسلمہ کو نیک کاموں کی طرف متوجہ کرتی رہے اور ناپسندیدہ کاموں سے روکتی رہے۔

ایک مبلغ کے لئے سب سے بہترین مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی زندگی ہے اور آپ کی زیرِ نظر تربیت حاصل کرنے والے صحابہ کرام کی زندگی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مسجدِ نبوی میں اُمور شرعی کی تعلیم، حلال و حرام کی تمیز، گناہ و ثواب کا فرق سمجھانے کے ساتھ ساتھ صحابہ کے نفوس کا تزکیہ بھی فرمایا۔

آپ نے جس طرح نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد، انفاق فی سبیل اللہ اور نوافِل وغیرہ کا امر فرمایا، اسی طرح سے خشوع و خضوع، صبر و شکر، ذکر، شب بیداری، اخلاص، اہلِ ذکر کی صحبت، تقویٰ اور توکل کی بھی تاکید فرمائی۔ اسی طرح سے یہ دونوں ظاہری و باطنی فرائض ایک ہی وقت میں ادا ہوتے رہے۔ آپ کی وفات کے بعد صحابہ کرام ان دونوں فرائض کو ادا کرتے رہے۔ صحابہ کرام دن کو ایک معلم اور استاد کی حیثیت سے تعلیم کتاب و حکمت کی ذمّہ داری ادا کرتے تھے، اور رات کو بیدار ہوکر آرام چھوڑ کر نفوس کا تزکیہ اور تصفیۂ قلب کا اہتمام کرتے تھے۔ صحابہ کرام نے اپنے ہم نشین افراد کی نہ صرف تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا بلکہ ان کے تزکیۂ نفس کی ذمّہ داری بھی بحسن و خوبی ادا کی۔

آج کا المیہ

جب تک تزکیہ اور تعلیم کے ایک ہی وقت میں حامل افراد بکثرت موجود تھے، تبلیغ و دعوت کا کام بحسن و خوبی ادا ہوتا رہا۔ یقینًا فلاح و کامیابی تعلیم اور تزکیہ کے یک جا ہونے میں ہی ہے۔ مگر رفتہ رفتہ ان دونوں شعبوں کے حامل افراد میں دوری پیدا ہوئی۔ تعلیم اور قلم سے تعلق رکھنے والے افراد تزکیۂ نفس کو غیر اہم اور خلافِ شریعت سمجھ کر مدارس تک محدود ہوگئے۔ بعض افراد نے صرف تزکیۂ نفس کی طرف توجہ دینا ضروری سمجھا، تعلیم اور تعلّم کو معرفت کے لئے حجاب سمجھنے لگے۔ نتیجتًا مدارس سے فارغ ہونے والے افراد عالم دین اور خادم دین ہونے کی بجائے دنیا اور رتبے کے طالب بنکر نکلے۔ تذکیۂ نفس کے دعوے دار دین و شریعت سے بالکل غیر واقف بن گئے۔

صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے بعد بھی ایسے افراد پیدا ہوئے جو صحابہ کرام کی طرح ایک ہی وقت میں عالم اور صاحبِ تزکیہ تھے۔ ان عظیم افراد کی نظر میں وہی نبوی تاثیر تھی، ان کی صحبت میں ہم نشین افراد کے نفوس کا تزکیہ ہوتا تھا، بیشک ایسے افراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی نائب اور وارث ہیں۔ ان کی محنت، کوشش اور جدوجہد سے اسلام کو نئی زندگی ملی۔ زمین کے چاروں طرف اسلام کا چرچا عام ہونے لگا، اور ہزارہا گمراہ بے دین، نیکوکار، متقی اور پرہیزگار بنے، اور لاکھوں کافر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف علومِ شرعہ کے ماہر تھے بلکہ علوم عقلیہ میں بھی آپ کا مقام بہت ہی بلند تھا۔ ان دونوں خصوصیات کے ساتھ ساتھ آپ اہل معرفت اور صاحبِ تزکیہ بھی تھے۔ حضرت محبوب سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی علمیت سے کون انکار کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی آپ کے فیض اور فضیلت سے بھی سارا جہاں واقف ہے۔

حضرت امام ربانی مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں لاکھوں آدمی عارف عالم اور صاحبِ اخلاص بنے۔

تبلیغ کس طرح کی جائے

عمومی طور پر تبلیغ سے مراد اور مقصد تقاریر اور راہِ خدا میں نکلنا لیا جاتا ہے، خواہ پیچھے بیوی بچوں کا فاقوں سے برا حال کیوں نہ ہو، ماں باپ کی خدمت ترک کیوں نہ ہو پرواہ نہیں۔

اسی طرح پڑوسی اس کے کردار سے نالاں رہتے ہیں، عزیز و اقارب سے صلۂ رحمی کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ باتیں ایسی ہیں جن کا حکم قرآن مجید کی آیات میں واضح طور پر موجود ہے۔ جاننا چاہئے کہ تبلیغ صرف تقاریر اور سفر کا نام نہیں بلکہ تبلیغ حسنِ اخلاق میں ہے، بیوی بچوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی ہے، والدین کی خدمت میں بھی ہے، پڑوسیوں سے حسنِ سلوک اور عزیز و اقارب سے صلۂ رحمی میں بھی ہے۔

آئیے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کی چند مثالوں پر غور کرتے ہیں۔ آپ کی راہ میں کانٹے بچھانے والی بوڑھی عورت بیمار ہوجاتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم سے متاثر ہوکر وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس واقعے سے دو سبق ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ پڑوسی کتنا ظالم، جابر اور کافر کیوں نہ ہو پھر بھی اس کا حق بنتا ہے اور اس کے غم اور خوشی میں شرکت کرنا عنداللہ باعثِ اجر عظیم ہے۔ دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ عین ممکن ہے آپ کے حسنِ خلق سے متاثر ہوکر وہ کفر، ظلم اور برائی سے باز آجائے اور آپ دُگنے اجر کے عنداللہ مستحق قرار پائیں۔ تبلیغ کا یہ طریقہ تیر بہدف ہے۔ اس طریقے سے ایسے لوگ بھی مستفید ہوجاتے ہیں جو شاید ہزار تقاریر سے بھی ہدایت حاصل نہ کرسکے ہوں۔

ایسا ہی ایک واقعہ حضرت نعمان بن ثابت، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ آپ کے پڑوس میں ایک شرابی شخص رہا کرتا تھا۔ وہ رات کو شراب پی کر گالیاں بکتا تھا۔ ایک روز آپ کو اس کی آواز سنائی نہیں دی۔ دریافت کرنے پر آپ کو معلوم ہوا کہ کسی کی شکایت پر اس کو جیل ہوگئی ہے۔ آپ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ خود جاکر اس کی ضمانت دے کر اسے رہا کراتے ہیں۔ وہ شرابی آپ کے اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہوکر شراب پینا ترک کردیتا ہے اور صالح بن جاتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے ایک اور مثال۔ ایک بوڑھی عورت مکہ معظمہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خوف سے چھوڑ کر کہیں اور جانے کے لئے نکل پڑتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو راستے میں مل جاتے ہیں۔ حال احوال دریافت کرنے کے بعد اس بوڑھی عورت کا سامان اپنے سر مبارک پر اٹھا لیتے ہیں اور پھر اس پر ترس کھاکر کہ اتنی بڑی عمر میں کہاں جائیگی، اپنے گھر لے آتے ہیں۔ سب اہل خانہ کو اس کی خدمت کا امر فرماتے ہیں تا آنکہ ایک دن، اس کے دریافت کرنے پر بتادیتے ہیں کہ میں ہی وہ شخص ہوں جس کے خوف سے تو مکہ معظمہ کو چھوڑ کر جارہی تھی اور وہ بوڑھی عورت خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوجاتی ہے، غور و فکر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آتی ہے۔

اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص مبلغ سے کتنی بھی نفرت کرے، حقارت کی نظر سے دیکھے مگر مبلغ کے دل میں اس کے خلاف غلط جذبات پیدا نہیں ہونے چاہئیں، کیونکہ اس شخص کی نفرت اور حقارت کی وجہ بے خبری اور لاعلمی ہے، جبکہ مبلغ تو باخبر ہے۔ صرف یہی نہیں کہ اس سے نفرت نہ کرے، بلکہ ممکن ہوسکے تو اس کی خدمت سے بھی دریغ نہ کرے۔

ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
ہر کہ خود را دید اور محروم شد

ہمارے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے پیشوا حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبندی بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ کسی راستے سے گزر رہے تھے کہ کوئی نوجوان رباب بجاتا ہوا گذرا۔ آپ نے شفقت سے اُسے بتایا کہ اے نوجوان یہ چیز ازروئے شرع حرام ہے۔ اتنی سی بات پر نوجوان نے مشتعل ہوکر وہ رباب آپ کے سر مبارک پر دے مارا اور اتنی قوت سے مارا کہ وہ رباب ٹوٹ گیا، حضرت کے سر مبارک کو ستر چوٹ آئی، لیکن آپ نے جوابی کاروائی سے اپنے خادمین کو منع فرمایا۔ جب گھر واپس پہنچے تو اس نوجوان کی طرف اپنے ایک خادم کو حلوہ اور رقم دے کر بھیجا اور فرمایا کہ اس نوجوان کو یہ پیغام دینا کہ ہماری بات سے آپ کو غصہ آیا، آپ کا دل مکدّر ہوا، یہ حلوہ کھاکر دل کا تکدّر دور کریں اور خوش ہوجائیں اور یہ رقم آپ کے رباب کی ہے جو کہ ہماری وجہ سے ٹوٹ گیا اور آپ کا نقصان ہوا۔ یہ حسنِ اخلاق دیکھ کر نوجوان نہ صرف شرمندہ ہوا بلکہ اتنا شرمندہ ہوا کہ خدمت میں حاضر ہوکر سب گناہوں سے تائب ہوا اور صالح بن گیا۔

اس واقعہ سے حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دو اوصاف واضح ہوتے ہیں، بلکہ تین۔ ایک آپ کی حق گوئی، دوسری وصف تحمّل اور بردباری، تیسری آپ کا اعلیٰ خلق اور کامیاب حکمت عملی۔

مندرجہ بالا واقعات سے جو ہمارے محبوب علیہ افضل الصّلوات و اکمل التحیات اور ماسلف صالحین کی اعلیٰ اوصاف ظاہر ہوتی ہیں، ان کا ہونا ایک مبلغ میں نہایت ضروری ہے۔

ایسے ہی عظیم اوصاف کے حامل مبلغ رضائے باری تعالیٰ کے جویا ہوتے ہیں اور اپنے نیک مقاصد میں کامیاب رہتے ہیں، اس لئے یہ سب اوصاف مبلغین اپنے اندر پیدا کریں۔

 

(ماخوذ از الطاہر سلسلہ ۱۷، ۱۸، ۲۰، ۲۲)