روزہ کی حقیقت

تحریر لطیف
حضرت شیخ المشائخ خواجہ محمد طاہر عباسی نقشبندی مجددی مدظلہ العالی

  ڈاؤنلوڈ کریں

 

روزہ کو عربی میں صوم کہا جاتا ہے، جس کے لغوی معنیٰ ہیں امساک یعنی رک جانا۔ صبح صادق سے سورج غروب ہونے تک کھانے، پینے اور جماع سے اپنے آپ کو روکے رکھنے کا نام شرعًا روزہ ہے اور ارکانِ اسلام میں اس کا تیسرا نمبر ہے۔

روزے کے صحیح حقائق و فوائد حاصل کرنے کے لیے کھانے، پینے اور جماع سے رکنے کے علاوہ کچھ دیگر اہم امور کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، جن کا مختصر بیان درج ذیل ہے۔

روزہ رکھنے کے فوائد

سکونِ نفس، کسر شہوت اور صفائے قلب

سکونِ نفس: انسانی نفس کی ایک اہم جبلت، اضطراب، بے صبری اور حرص بھی ہے۔ انسانی نفس غذا بھی طلب کرتا ہے، مگر ایک قسم کی غذا پر صبر نہیں کرتا، بلکہ چاہتا ہے کہ کھانے کی بہت سی اقسام ہوں اور عمدہ بھی ہوں۔ پھر جب اس کا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ سمجھنے لگتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی بھوکا نہیں ہے۔ اسی طرح لباس بھی طلب کرتا ہے، مگر اس میں بھی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، زرق برق، نت نئے انداز و فیشن کے لباس طلب کرتا ہے۔ اسی طرح زندگی کی جملہ ضروریات میں اس کے مطالبے ان گنت اور لامتناہی ہیں اور مسلسل جاری بھی۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان مگر پھر بھی کم نکلے

اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات چاہتی ہے کہ میرے بندے سکون و یکسوئی سے میری عبادت کریں، مگر انسان کا سرکش نفس اس دعوت کو قبول نہیں کرتا۔ کیا اس نفس کو معمولی کھانا کھلائیں اور ایک ہی قسم کا طعام دیا جائے تو اس کو سکون میسر ہوگا؟ ہرگز نہیں! بلکہ وہ دولتمند آدمی کے طعام کا تصور سامنے رکھ کر ہمیں بے صبر و بے شکر بنانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ اس کو ایک خلاء چاہیئے، جہاں سے وہ اپنی آواز کو دل تک پہنچائے اور انسان کو پریشان کرسکے، اور وہ ہے اپنی حیثیت سے زیادہ کی سوچ و فکر۔ جب انسان یہ عزم اور نیت کرتا ہے کہ صبح سے مغرب تک کچھ بھی کھانا پینا نہیں ہے، تو یہ عزم انسانی قلب و نفس کے درمیان ایک ساؤنڈ پروف (ایئر ٹائٹ) ہوکر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اب اس کو بھوکا پیاسا رہنا اور اس پر صبر کرنا نسبتًا آسان ہوجاتا ہے اور اسی طرح قدرے پرسکون ہوجاتا ہے۔

کسر شہوت و صفائے قلب

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی نفس سب سے زیادہ سرکشی و خرمستی پیٹ بھرنے کے بعد دکھاتا ہے۔ اگر جیب میں پیسے زیادہ ہوں، لباس زرق برق اور سواری نفیس ہو، مگر کھانے کے لئے کچھ بھی نہ ہو، تو وہ اس طرح ہوگا جیسے گاڑی نئی ہو مگر پیٹرول میسر نہ ہو۔ اس مثال سے تاہم انسانی نفس کو بھوکا رکھنا اور دیگر خواہشات سے روکے رکھنا اتنا زیادہ مشکل نہیں ہے، کیونکہ اگر کچھ توجہ و ہمت سے کام لیا جائے تو نفس کی دیگر خواہشات کو توڑا جاسکتا ہے اور اس کے آگے بند باندھا جاسکتا ہے۔ زیادہ وضاحت کے لیے مناسب ہے کہ اس مقام پر حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی تقسیم کو بیان کیا جائے۔ آپ نے روزہ کی تین اقسام بیان کی ہیں۔

پہلی قسم عوام کا روزہ۔ جو کھانے پینے سے رک جانے اور جماع سے پرہیز کا نام ہے، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ اس کو سکونِ نفس کہتے ہیں۔

دوسری قسم خواص کا روزہ۔ جو جمیع اعضاء و جوارح کا روزہ ہے، جو زبان کو بدکلامی سے، ہاتھوں کو ظلم زیادتی سے، آنکھ کو بدنظری سے محفوظ رکھنے کا نام ہے۔ اس کو کسرِ شہوت کہتے ہیں۔ ایسا مقام بہت ہی کم لوگوں کو حاصل ہے۔

تیسری قسم اخص الخواص کا روزہ۔ جو اعضائے جسم کے ساتھ دل کو برے خیالات، افکار، گناہوں کے ارادے سے پاک رکھ کر اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر میں دائمی مشغول رہنے کا نام ہے۔ یہ صفائے قلب و تزکیہ نفس کا مقام ہے، جو بہت ہی کم لوگوں کو حاصل ہے۔ روزے کے یہ کل تین مدارج ہوئے (۱) سکونِ نفس، (۲) کسرِ شہوت، (۳) صفائے قلب، جو کوشش سے درجہ بدرجہ حاصل ہوتے ہیں۔

روزہ و صبر کا باہمی گہرا تعلق ہے

روزہ درحقیقت صبر کا نام ہے اور ازروئے قرآن صابرین کو اللہ تعالیٰ کی دائمی معیت (ہم نشینی) حاصل ہے ”ان اللہ مع الصابرین“۔ اسی مفہوم کی حدیث شریف بھی روزہ داروں کے حق میں وارد ہوئی ہے۔

”عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر امثالہا الیٰ سبع مائۃ ضعف الا الصوم فانہ لی و انا اجزیٰ بہ“ (الحدیث)

حدیث قدسی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اولادِ آدم کی ہر نیکی دس سے سات سو گنا بڑھادی جاتی ہے، سوائے روزہ کے، کیونکہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ جزا تو ہر عمل کی اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے، مگر یہاں جو بطور خاص ارشاد ہوا کہ روزے کی جزا میں عطا کروں گا، یعنی اپنا دیدار عطا کروں گا۔ دوسری جگہ پر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صابرین کے لیے ارشاد فرمایا ہے:

”انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب“

یعنی صابرین کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد نبوی ہے ”الصوم نصف الصبر“، روزہ صبر کا آدھا ہے۔ مندرجہ بالا حدیث کے مفہوم کے مطابق صابرین کو بغیر حساب کے اجر عطا ہوگا اور حدیث کے مفہوم کے مطابق روزہ صبر کا نصف ہے۔ اسی طرح روزہ داروں کا اجر بھی حد و حساب سے باہر ہے۔

روزہ دار کی عنداللہ مقبولیت و محبوبیت

حدیث قدسی ہے کہ

”ولخلوف فم الصائم اطیب عنداللہ من ریح المسک“

روزہ دار کے منہ کی بو عنداللہ مشک کی خوشبو سے زیادہ محبوب و مرغوب ہے۔ یہاں اسے مشک سے بھی زیادہ محبوب کہا گیا ہے۔ یہ اس لیے کہ یہ عبادت کی خوشبو ہے اور اس کے احساس سے حواس ظاہرہ بے بہرہ ہیں۔ جیسا کہ نماز ہے۔ ظاہر میں تو اٹھنے، بیٹھنے، جھکنے اور زمین پر پیشانی ٹیکنے کا نام نماز ہے۔ اگر کوئی شخص ویسے ہی سرِ بازار اٹھنا، بیٹھنا اور جھکنا شروع کردے تو آدمی اس کو پاگل اور دیوانہ کہیں گے اور اس پر طنز کریں گے، مگر جب یہی صورت رضائے الٰہی کے لیے اختیار کرے گا تو دیکھنے والوں کی سوچ تبدیل ہوجائے گی اور یہی حرکات آدمی کو محبوب و مرغوب نظر آئیں گی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بھوک اور پیاس سے نڈھال نظر آئے گا تو دیکھنے والوں کو اس پر رحم آئے گا، اور وہ اسے مجبور و بے بس انسان سمجھنے لگیں گے۔ مگر جب یہی آدمی روزہ سے ہوتا ہے اور یہی کیفیت اس کے چہرے پر نمایاں ہوتی ہے تو دیکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت نظر آتی ہے اور لوگ اسے رضائے الٰہی کا طالب سمجھتے ہیں۔ اور ان دیکھنے والوں میں ایک ذات اللہ تعالیٰ کی بھی ہے، جس کو اپنی ساری مخلوق سے محبت ہے، مگر روزہ دار سے خصوصی پیار اور بے حد محبت ہے۔ جس طرح ایک ماں کو اپنے سب بچوں سے محبت ہوتی ہے، مگر کچھ خصوصی اوصاف کی وجہ سے بعض بچوں سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ جبکہ ماں کی بہ نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کو اپنے بندوں سے زیادہ محبت ہے۔ جس طرح ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر ستر ماؤں کی مادری شفقت و محبت کو جمع کیا جائے تو اس سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے پیار و محبت ہے۔ محدثین کرام فرماتے ہیں کہ عرب کی اصطلاح میں ستر کی تعداد محض کثرت کے معنیٰ کے اظہار کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہاں بھی وہی کثرت مراد ہے۔ اس صورت میں حدیث مبارکہ کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت، دنیا کی ساری ماؤں سے زیادہ ہے۔

بہرحال، یہ خوشبو روزہ دار کی عبادت کی خوشبو ہے، اس کے اخلاص اور خدا سے محبت کی خوشبو ہے، اللہ تعالیٰ کی اطاعت و معرفت کی خوشبو ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ظاہر بین انسانوں کو یہ خوشبو کچھ زیادہ پسند نہیں آئے گی، مگر چونکہ درحقیقت یہ خوشبو روزہ دار کے منہ سے نہیں نکلتی، بلکہ اس کے پاکیزہ دل کے باغِ معرفت کے محبت کے پھولوں سے نکلنے والی خوشبو ہے۔ یہ خوشبو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی کہ ہر ایک روزہ دار کے منہ میں موجود ہو۔ مگر محبت و معرفت خداوندی کی یہ خوشبو جس کو نصیب ہے، اس کے دوسرے عیبوں، خامیوں اور کوتاہیوں کو ڈھانک دیتی ہے، بلکہ اسے جملہ عیبوں اور کمزوریوں سے چھٹکارا دلاتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبت والا ہنر ہی کارگر اور کافی ہے جیسا کہ حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے فرمایا

ور ہنرے داری و ہفتاد عیب
دوست نہ بیند بجز آن یک ہنر

یعنی اگر تجھ میں ایک ہنر اور ستر عیب ہوں تو پھر بھی تمہارے دوست کو ایک ہنر (اچھے اوصاف) کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مفہوم کو اس طرح بیان کیا ہے۔

محبت رکي مَن ۾ رَنڍا روڙيا جِن،
تِن جو صرافن، اَڻ توريو ئِي اَگهائيو.

پھر حقیقی نسبت سے عاری دعویدار، تمنائیں کرنے والے کی اس طرح نقاب کشائی کی ہے۔

مندي پائي مَن ۾ ڪَسو ڪِتيو جن،
تن جو صرافن، دُڪو ئي داخل نه ڪيو.

روزہ دار کا اجر عنداللہ بڑا ذخیرہ ہوگا، اتنا بلند و بالا جیسا کہ آسمان بلند ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اتنا بھاری اور وزن دار ہوگا، جیسے پہاڑ بھاری ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اتنا عمیق ہوگا جیسے سمندر، بلکہ اس سے بھی زیادہ عمیق۔ درحقیقت روزہ دار کا اجر اور بدلہ انسانی سوچ، سمجھ، وہم و گمان سے باہر ہے، اور یہی اس کے شایان شان بھی ہے۔ کیونکہ روزہ خاص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ روزہ کو ہی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے کا خصوصی شرف حاصل ہے۔ جبکہ دیگر جتنی عبادتیں ہیں، ان کو ہر ایک انسان دیکھ سکتا ہے، مگر روزہ امر باطنی ہے جس کو فقط اللہ تعالیٰ دیکھ سکتا ہے، کیونکہ اس کی کوئی ظاہر شکل و صورت نہیں ہے جو کہ انسانی آنکھ دیکھ سکے۔ جبکہ دوسری عبادات انسانی آنکھ سے مخفی نہیں ہوا کرتیں اور ان میں ریاء کا شائبہ ہوسکتا ہے۔ مگر روزہ باطنی عمل ہے، اس میں ریاء کا شائبہ نہیں ہوتا، کیونکہ سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرا کوئی اس عمل کو نہیں جان سکتا۔ اس لیے حدیث شریف میں ارشاد ربانی ہے کہ ”الصوم لی و انا اجزی بہ“ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔

روزہ کی حالت میں کھانے پینے اور جماع کے علاوہ دیگر ممنوعات

حدیث مبارکہ میں پانچ چیزیں ایسی بیان شدہ ہیں جو حالت روزہ میں بالخصوص ناپسندیدہ اور ممنوع ہیں۔

”خمس یفطرن الصائم الکذب والغیبۃ والنمیمۃ والیمین والنظر بشھوۃ“

جھوٹ، غیبت، چغل خوری، جھوٹی قسم اور شہوت سے دیکھنا روزہ کو توڑ دیتے ہیں۔ یعنی کامل روزہ کے فوائد سے محروم کردیتے ہیں۔ افسوس ہے کہ عمومًا ہم روزے کی حالت میں ان باتوں سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ شاید ان خراب باتوں میں اور بھی زیادہ مبتلا ہوجاتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ رمضان شریف میں نیک اور صالح لوگ روزے کی حالت کی وجہ سے کھانے پینے سے بے فکر ہوجاتے ہیں۔ کاروبار، تجارت اور دیگر مصروفیات کو بھی مختصر کردیتے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیئے کہ یہ وقت تلاوت، عبادت، ذکر و فکر، نصیحت اور تبلیغ میں گذرے، لیکن عمومًا گھر میں یا باہر کچہری لگاکر فضول باتوں میں وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ اسی طرح خواتین، جن کا یوں تو زیادہ وقت کھانا پکانے یا سلائی کڑھائی وغیرہ میں گذر جاتا ہے، روزے کی حالت میں فراغت کی وجہ سے اپنا وقت فصول گفتگو میں گنوادیتی ہیں اور ایسی گفتگو میں غیبت، جھوٹ اور جھوٹی قسموں سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی لئے ہمارے مرشد مربی مہربان حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ فرماتے تھے بہتر ہے رمضان شریف میں تلاوت، عبادت وغیرہ میں وقت صرف کیا جائے، بصورت دیگر چادر ڈال کر لیٹ جاؤ تاکہ اپنا روزا محفوظ رکھ سکو۔

ایک اہم واقعہ

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں دو عورتوں نے روزہ رکھا۔ شام کے وقت ان کی حالت نازک ہوگئی۔ بارگاہ رسالتمآب صلّی اللہ علیہ وسلم میں آدمی بھیج کر روزہ افطار کرنے کی اجازت چاہی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے ذریعہ ان کو بلا بھیجا اور آنے پر حکم فرمایا کہ جو کچھ تم نے کھایا ہے، اس پیالے میں اسے قے کرکے نکالو۔ ان میں سے ایک عورت نے قے کرکے تازہ خون اور گوشت کے ٹکڑوں سے پیالہ آدھا کردیا۔ دوسری عورت نے بھی اسی طرح قے کی، یہاں تک کہ دونوں کی قے سے پیالہ بھرگیا۔ وہاں موجود لوگ تعجب میں پڑ گئے۔ آپ کریم رؤف رحیم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان خواتین نے حلال، طیب اشیاء سے روزہ رکھا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء سے افطار کردیا۔ درحقیقت ان عورتوں نے دن کو آپس میں بیٹھ کر دوسروں کی غیبت کی تھی۔ پیالہ میں یہ گوشت وہی ہے جو ان دونوں نے لوگوں کا کھایا تھا (یعنی غیبت کی صورت میں۔ قرآن مجید میں غیبت کرنے کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے جیسا ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے)۔

بیکار کاموں اور باتوں سے بچنے کے لئے بہترین طریقہ

اس عاجز کو یاد ہے کہ درگاہ فقیر پور شریف کے ابتدائی ایام میں حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نے فقراء کے لئے رمضان المبارک میں ایک اچھا طریقہ بلکہ مجاہدہ تجویز فرمایا تھا اور وہ انتہائی مؤثر اور کامیاب ثابت ہوا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ مہینہ ہم مسلمانوں کے لئے مغفرت، رحمت اور بخشش کا مہینہ ہے، لیکن ہمارے اکثر بھائی کم علمی اور صالحین کی صحبت سے دوری کی وجہ سے اس کی اہمیت سے بے خبر ہیں، ان کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام ہونے کے ناتے ہم پر یہ فرض بھی ہے۔

اس عظیم کام کے لئے آپ نے انقلابی اور ممتاز طریقہ اختیار فرمایا، جس کی مثال ماضی میں نظر نہیں آتی کہ بطور خاص رمضان شریف کی تبلیغ کیلئے اپنے خادموں، فقیروں، خلیفوں، طالبوں اور عالموں کو اس دینی خدمت کے لئے تیار کیا اور وہ گروہ در گروہ اس فرض کی بجا آوری کیلئے نکل پڑے۔ اسٹیشن، بس اسٹاپ، اسپتال، اسکول، کالج، بازار، جیل، تفریح گاہیں، ریل گاڑیاں، بسیں اور ویگنیں ان کے خاص ہدف تھے۔ انہوں نے ان اجتماعی جگہوں پر پہنچ کر بے دھڑک، بے طمع اور والہانہ انداز میں حق کا پیغام پہنچایا، یہاں تک کہ معصوم اور کم عمر بچوں کے ذریعہ عورتوں تک یہ پیغام پہنچایا، انہوں نے ریل کے ڈبوں کے اندر اور گھروں میں جاکر عورتوں کو آگاہ کیا۔ کتنے ہی بے خبر مسلمان افسوس کرنے لگے کہ ہم سے اتنے روزے کیوں رہ گئے اور انہوں نے آئندہ روزے رکھنے کا پکا وعدہ کیا، بلکہ فقراء سے شکوہ کیا کہ کاش! آپ نے ہمیں پہلے آکر آگاہ کیا ہوتا تو شاید اتنے گذرے ہوئے روزے ہمارے ہاتھ آجاتے۔ الحمدللہ یہ عہد آفریں تبلیغی طریقہ آج تک ہمارے مرشد مربی قطب دوراں حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کی جماعت میں جاری ہے۔ سنت نبوی کے مطابق ماہ شعبان سے فقراء تبلیغ کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہاں پر یہ عاجز جملہ احباب طریقت کو بالخصوص اور دیگر مسلمان بھائیوں کو بالعموم عرض کرتا ہے کہ وہ خود بھی اس مقدس مہینے کا احترام کریں اور تبلیغ کا فریضہ کم از کم اس مہینے میں تو ضرور ادا کریں۔

بغیر عذر کے روزہ چھوڑنا گناہ کبیرہ ہے

تعجب ہے ہماری غفلت، لاپرواہی، خیر و برکت کے حصول سے محرومی پر۔ ماہ رمضان میں رحمت خداوندی کا سمندر موجزن ہوتا ہے، عام معافی اور مغفرت کا اعلان ہوتا ہے، پھر بھی ہم غفلت کی نیند میں محو رہتے ہیں۔ افسوس! صد افسوس!

خدارا! ان دو احادیث کے مضمون پر غور فرمائیں اور پھر اپنی حالت کا جائزہ لیں۔ اصل لطف تو بخاری شریف اور مسلم شریف میں ارشاد فرمائے ہوئے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت الفاظ کی زیارت اور تلاوت میں ہے، لیکن یہاں ترجمے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان المبارک آتا ہے تو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن جکڑے جاتے ہیں، اور دوزخ کے سب دروازے بند کئے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ان میں کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رہتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان کرنے والا پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب قدم آگے بڑھاؤ اور اے بدی اور نافرمانی کے طالب رک جاؤ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے (گنہگار) بندوں کو دوزخ سے آزاد کیا جاتا ہے۔ اور یہ سب رمضان کی ہر رات ہوتا ہے۔ (جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ)

جنت کے دروازے کھولنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات چاہتی ہے کہ میرا کوئی بندہ میری رحمت اور مغفرت سے محروم نہ رہے۔ اگر وہ خود نیکوکار نہیں ہے تو میرے نیک اور صالح بندوں کی صحبت میں آجائے (کیونکہ ایک دوسری روایت میں صلحاء کے ذکر کے حلقوں کو جنت کے باغوں سے تشبیہ دی گئی ہے) جب ایسی صحبت اختیار کی جائے گی تو اس پاکیزہ ماحول اور مزکی نفوس کے پاکیزہ اثرات ضرور قلوب پر مرتب ہوں گے اور ان کی برکات سے روزہ رکھ کر دن کو تلاوت اور ذکر میں گذارے گا اور اپنی رات کو تراویح، تہجد اور عبادت میں گذاردے گا۔ یوں بندہ ایک طرح سے دنیا میں ہی حلقہ ذکر میں شمولیت کی وجہ سے جنت کے مزے لوٹے گا۔ اسی وجہ سے اس کیلئے جنت کے دروازے کھل جائیں گے اور دوزخ کے دروازے بند ہوجائیں گے۔

مگر وہ بدنصیب انسان جو بغیر عذر کے روزہ ترک کردیتے ہیں، اپنے لئے جہنم مول لیتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:

”قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم من افطر یوما من رمضان بلا عذر لم یقضہ صیام الدھر و ان صامہ“ (رواہ احمد)

یعنی جس شخص نے بغیر عذر کے ایک بھی روزہ ترک کیا، اگر وہ زندگی بھر بھی روزہ رکھے گا تو وہ بھی اس کے لئے کافی نہیں ہوں گے۔ یعنی اس ثواب کو پھر بھی حاصل نہیں کرسکتا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا ہے کہ:

”عری الاسلام و قواعد الدین ثلاث شھادۃ ان لا الہ الا اللہ والصلوۃ و صوم رمضان فمن ترک واحدۃ منھن فھو کافر“

یعنی اسلام کی رسیاں اور دین کی بنیاد تین چیزیں ہیں۔ (۱) کلمہ شہادت (۲) نماز (۳) رمضان شریف کے روزے۔ پھر جس نے ان میں سے کسی ایک کو ترک کیا وہ کافر ہے (نعوذ باللہ من ذالک)

فائدہ۔ علماء اہل السنۃ کا فتویٰ ہے کہ ارکان اسلام کا انکار کرنے والا کافر ہے اور اقرار کرتے ہوئے عملی کوتاہی کرنے والا فاسق ہوجاتا ہے۔

روزہ دار کو حاصل ہونے والے روحانی اور باطنی فوائد

اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم صفات میں سے ایک صفت یہ ہے ”و ھو یطعم ولا یطعم“ اللہ تعالیٰ خود کھانے سے پاک ہے، البتہ دوسروں کو کھلاتا ہے۔ بیشک روزہ دار، حالتِ روزہ میں اللہ تعالیٰ کی اس عظیم صفت سے موصوف ہوجاتا ہے اور اس حکم کی بجا آوری کرتا ہے: ”تخلقوا باخلاق اللہ“ یعنی خدائی اخلاق اپنے میں پیدا کرو، کہ روزہ دار بھی حالت روزہ میں کچھ نہ کھاکر بشریت کی صفات سے بالاتر ہوکر صفات باری تعالیٰ سے موصوف ہوجاتا ہے۔

اسی لئے اس کے قلب اور روح کو پاکیزگی، طاقت اور عالم بالا کی طرف پرواز کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور نفس کمزور ہوتا ہے اور اس کو کینہ و کدورت اور دوسری بری صفات سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ بعض مفسرین نے فرمایا ہے:

”اذا جاعت النفس شبعت جمیع الاعضاء واذا شبعت جاعت کلھا“

یعنی جب نفس بھوک میں مبتلا ہوتا ہے تو جمیع اعضاء سیراب ہوتے ہیں، مگر جیسے ہی نفس سیراب ہوا تو دوسرے سارے اعضاء بھوکے رہ جاتے ہیں۔ نفس کو بھوکا رکھنے سے ہی قلب کی صفائی ہوتی ہے اور اس کی کدورتیں دور ہوجاتی ہیں، کیونکہ قلب کی کدورتوں کے اسباب زبان، آنکھوں اور دوسرے اعضاء کو فضول کاموں میں ملوث کرنا نفس کا کام ہے اور بدن کے اعضاء اسی وقت فضولیات میں ملوث و مشغول ہوتے ہیں جب وہ نفس کی ظلماتی قوتوں کے تابع ہوتے ہیں اور جب نفس بھوکا ہوتا ہے تو اس میں ظلماتی قوتوں کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، بلکہ قلب کی صفائی، پاکیزگی اور طاقت کے باعث دوسرے اعضاء بھی نورانی اور روحانی قوتوں کے تابع ہوکر نیک کاموں میں مستعمل ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ حالتِ روزہ میں انسان کے قلب میں رقت، رحمت اور رونق پیدا ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ غریبوں اور مسکینوں کی بھوک اور دکھ درد کو محسوس کرکے ان کے دکھ اور پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالتِ روزہ میں انسان عملًا ان فقیروں، غریبوں اور مسکینوں کی موافقت اور برابری اختیار کرتا ہے جن کو کھانے کے لئے روٹی بھی میسر نہیں ہوتی۔ جیسے حضرت بشر حافی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ مرقاۃ شرح مشکواۃ شریف میں منقول ہے کہ سردی کے موسم میں ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ شخص یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آپ نے اپنے کپڑے اتار کر لٹکادیئے، آپ کا بدن ننگا ہے اور سردی کے باعث کانپ رہے ہیں۔ عرض کیا کہ یا حضرت! ایسی سردی میں کپڑے اتارنے کا مقصد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اے میرے بھائی! فقراء اور مسکین بہت ہیں، ان سب کو کپڑے پہنا کر برابری اختیار کرنے کی میرے اندر طاقت نہیں ہے، البتہ سردی کو برداشت کرنے میں تو ان سے برابری کرسکتا ہوں۔ اللہ! اللہ!! کیا اللہ والوں کی شان اور مرتبہ ہے اور ان کی ہر ادا اور ہر عمل کتنا بامعنی اور پیارا ہے۔

سالکانِ طریقت کی سواری نفس ہے اور یہ وہ سواری ہے جس کو شریعت کا لگام دیکر، عمل اور تقویٰ کی زین اوپر رکھ کر ہمت کی رکاب میں پیر رکھ کر، استقامت کے تازیانہ سے چلانا ہے۔ جبکہ عوام کالانعام کا عمل اس کے برعکس ہے کہ نفس ان پر سوار ہے اور اس نے ان کو خواہشات کی لگام دے کر اپنا تابع بنا رکھا ہے۔

اے سالک! اگر تو چاہتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا دیدار تجھ کو حاصل ہو تو نفس مطمئنہ ہی ایک ایسی سواری ہے جو تجھے اس اعلیٰ مقام تک پہنچاسکتی ہے، جس سے بڑھکر اور کوئی مقام نہیں ہوسکتا۔ ”للصائم فرحتان“ والا مقام بھی ان خاص الخاص افراد کیلئے ہے جنہوں نے نفس کو شریعت کی لگام دے کر اپنی سواری بنایا ہے۔ کتنا خوبصورت منظر ہے کہ ایک طالب دیدار الٰہی کیلئے اپنے نفس کی مرکب پر سوار ہے۔ نہ خود کچھ کھاتا پیتا ہے اور نہ ہی اپنی سواری کو دانہ پانی دینا پسند کرتا ہے۔ کیونکہ ”الصوم لی و انا اجزیٰ بہ“ والے ارشاد کی تعمیل نے اسے بھوک اور پیاس سے بالکل بے پرواہ کردیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس محبوب ذات کے دیدار کیلئے بھوک اور پیاس کاٹنا ایک شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی نگاہ اپنی آخری منزل پر ہے جو ابھی دور ہے، اور اللہ تعالیٰ کا مقرب بننے کے لئے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ الیٰ ربک منتھاھا۔ سفر کرتے صبح سے شام ہوگئی، سفر کی ایک منزل طے ہوئی۔ پہلی فرحت یعنی آرام اور سکون حاصل کرنے کا وقت آگیا۔ بھوک اور پیاس کی شدت کو مٹانے کے لئے آسان اور عجیب فرحت اور طاقت محسوس ہوئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا پہلا انعام تھا، مگر اصل انعام کی امید، تمنا اور ولولہ ابھی شدید ہوتا جارہا ہے۔ اور یہ ارادہ کیا کہ افطار میں اللہ تعالیٰ کا رزق کھانے سے جو قوت اور طاقت حاصل ہوگی، وہ اس عظیم مقصد اور مبارک راہ معرفت کو طے کرنے میں صرف کروں گا، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ راستہ عظیم ہے، مقصد عظیم ہے، یہ منزل طے کرنا مقبول اور مخلص بندوں کا کام ہے اور یہی وہ افراد ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل کیے جائیں گے، جہاں ہر قسم کا عیش و آرام موجود ہے۔ مگر وہ جنت میں جاکر پریشان ہوجائیں گے۔ ان کی بے قراری کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے ان سے سوال کریں گے کہ تمہاری بے تابی اور بے قراری کا سبب کیا ہے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نے دنیا میں یہ نیک کام اور عبادت محض دیدار الٰہی کے حصول کی خاطر کی تھی، نہ کہ جنت کے حصول کے لئے۔ ”صوموا لرؤیتہ“ (اس کے دیدار کے لئے روزہ رکھو)۔

جبکہ میں عاصی اور گناہ گار ہوں، مفلس اور مسکین ہوں مگر خوف و ہراس کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی ایک کرن نمودار ہوتی ہے۔

مشو اے عاصی بیچارہ نومید
کہ چوں پیدا شود اشراقِ خورشید

اگر افتد بر قصر بادشاہے
ہم افتد بر کنج گدائے

اے گنہگار بندہ! تو مایوس نہ ہو۔ کیا تو نہیں دیکھتا ہے کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو جس طرح اس کی چمک اور روشنی ایک بادشاہ کے محل پر پڑتی ہے بالکل اسی طرح فقیر و گدا کے جھونپڑے پر بھی پڑتی ہے۔ یقین ہے کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کا دیدار جنت میں خدمت گذاروں، محققوں اور محبوبوں کو عطا ہوگا تو ان کی جوتیاں اٹھانے والوں، دروازے کی جھاڑو لگانے والوں، گھر کے پہریداروں، خدمتگاروں اور غلاموں کو بھی ضرور ایک نہ ایک جھلک اور نظارہ عطا ہوگا۔

یابم یا نہ یابم آرزوئے می کنم
حاصل آید یا نہ آید جستجوئے می کنم

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کی کیفیت کے لطف اور سرور کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ”من لم یذق لم یعرف“ جس نے نہیں چکھا اس نے معرفت حاصل نہیں کی۔  ؏ لذت مے نہ شناسی، بخدا تا نہ چشی

ایک شیخ طریقت فرماتے ہیں کہ ایک بار معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا گیا کہ عرش عظیم کے نیچے حالت سکر و وجد میں نعرے لگا رہے ہیں۔ اللہ رب العزت کی طرف سے ملائکہ کو ارشاد ہوا کہ ”من ھٰذا؟“ (یہ کون ہے) وھو اعلم (حالانکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے) فقالوا ھذا عبدک معروف (یا اللہ! یہ تیرے بندے معروف کرخی ہیں) فقال اللہ عزوجل عبدی معروف قد سکر من شراب محبتی لا یفیق الا برؤیتی (خدائے بزرگ و برتر نے ارشاد فرمایا: میرا بندہ معروف کرخی میری محبت کی شراب میں مست ہے، اسے افاقہ اور سکون میرے دیدار کے سوا حاصل نہیں ہوگا)۔

رہا ہوش اس کو کسی کا نہ اپنا
الٰہی ہوا جو کہ ہوشیار تیرا

حجابِ خودی میرا یارب اٹھادے
کہ تا دیکھوں بے پردہ دیدار تیرا

کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ روزہ جوارح (اعضاء بدن) کے لئے بلا ہے، لیکن دل کے لئے جِلا ہے، جان کے لئے ولا (دوستی) ہے اور سِر (باطن) کے لئے بقا ہے۔

دوستو! اگر روزہ رکھنے سے دل کو جلا، جان کو ولا، سر کو بقا جیسے عظیم الشان مراتب ملیں اور ادھر فقط جسم کمزور رہے تو کسی نقصان کا سودہ نہیں ہے، بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔

اس مضمون کو لکھنے میں مندرجہ ذیل کتابوں سے مدد لی گئی ہے۔

(۱) قرآن مجید (۲) مرقۃ شرح مشکوۃ شریف (۳) احیاء علوم الدین (۴) مکتوبات امام ربانی (۵) کشف المحجوب (۶) مکتوبات شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری (۷) گلستان شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین و دیگر کتب تصوف۔

[اوپر]