صاحبِ خلقِ عظیم

تحریر لطیف
حضرت شیخ المشائخ خواجہ محمد طاہر عباسی نقشبندی مجددی مدظلہ العالی

ڈاؤنلوڈ کریں

 

 

اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مسلمان پر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق بنائے، غیر اسلامی رسوم و رواج، غلط طرح کی رفتار و گفتار کو ترک کرے۔ غریضیکہ اپنے ہر قول و فعل کو حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور ان کے اسوۂ حسنہ کے مطابق ادا کرے۔

اسلام قبول کرنے کی غرض و غایت کیا ہے؟ اگر اس طرف بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا و آخرت کی فلاح، عذاب الٰہی سے نجات اور اللہ تعالیٰ کی معرفت و رضا حاصل کرنا اسلام کے غرض و غایت ہیں۔ کیا اسلام صرف کلمہ پڑھنے کو کہا جاتا ہے؟ کیا مندرجہ بالا مقاصد صرف کلمہ پڑھنے پر اکتفا کرنے سے حاصل ہوسکتے ہیں؟ ان سب باتوں کو واضح انداز میں سمجھانے کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے احکامات نازل کرنے کے ساتھ اپنے پیارے حبیب حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی پوری دنیا کے سامنے بہتر انداز میں پیش فرماکر، اسے اختیار کرنے کا امر فرمایا۔

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ۝

ترجمہ: بیشک آپ کے لیے اللہ کے رسول (صلّی اللہ علیہ وسلم کی سیرت) میں اسوۂ حسنہ (عمدہ نمونہ) موجود ہے۔

یعنی آپ کی متابعت کرنا، جس طرح آپ سختیوں پر صابر، لڑائیوں میں ثابت قدم، دشمنوں کے ساتھ احسان کرنے والے، بہترین اخلاق و کردار کے مالک ہیں، تو اسی طرح یہ اقتدا اس لیے لازم ہے۔

”لِمَنْ کَانِ یَرْجُوْ اللہَ“ جو امید رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کے دیدار کی، آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کی۔

جس طرح اوپر تحریر کیا گیا ہے کہ اسلام قبول کرنے کا غرض و غایت حصولِ رضائے باری تعالیٰ، دنیا و آخرت کی فلاح اور عذابِ الٰہی سے نجات ہے۔ اس آیت مبارکہ میں بھی انہی مقاصد کی طرف اشارہ موجود ہے۔ ساتھ ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس غرض و غایت کے حصول کا آسان ذریعہ اسوۂ حسنہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرنا مقرر فرمایا۔صاحب تفسیر قرطبی نے اس آیت کا نہایت واضح اور عمدہ تفسیر بیان فرمایا ہے:

قولہ تعالیٰ ”اُسْوَۃٌ“ اَلْاُسْوَۃُ الْقُدْوَۃُ۔ اسوہ کی معنیٰ قدوہ کی گئی ہے، یعنی وہ طریقہ جس کی اقتدا کی جائے۔ آگے مزید تفسیر کرتے ہوئے صاحب تفسیر قرطبی نے فرمایا:

”اَلْاُسْوَۃُ مَا یُتَاسّیٰ بِہٖ اَیْ یُتَعَزّیٰ بِہٖ فَیُقْتَدَیٰ بِہٖ فِیْ جَمِیْعِ اَفْعَالِہٖ وَ یُتَعَزَّیٰ بِہٖ فِیْ جَمِیْعِ اَحْوَالِہٖ“۔

اس تفسیر کے مطابق یہ مطلب ہوگا کہ آپ لوگوں کے لئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے ہمدردی کرنا (لازمی) ہے۔ جس طرح سے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے دین کی مدد فرمائی، ہر دکھ پر صبر کیا اور آپ سے ہمدردی کی۔ لہٰذا آپ بھی آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی طرح مصائب اور شدائد پر صبر کریں، آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے ہمدردی کریں اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلیں اور آپ کے جمیع اوصاف حمیدہ کی اقتدا کریں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی کامل اقتدا کرنے کے بعد ہی ایک مسلمان اپنی زندگی کے غرض و غایت کو حاصل کرسکتا ہے۔ پھر صاحب تفسیر قرطبی آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی قابل تقلید مثالیں بیان کرتے ہیں۔ فَلَقَدْ شُخَ وَجْھُہٗ وَ کُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہٗ۔ پھر بیشک آپ کا روئے مبارک جنگوں میں زخمی ہوا، دندان مبارک شہید ہوئے، آپ کے پیارے چچا سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے، آپ کو فاقے کاٹنے پڑے۔

آگے قرطبی تحریر کرتے ہیں: وَلَمْ یَلف اِلَّا صَابِرًا مُحْتَسبًا و شَاکِرًا رَاضِیًا۔ یعنی اتنی تکالیف کے باوجود آپ صلّی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صبر کرتے رہے، اللہ تعالیٰ سے نیک اجر کے طالب رہے، ہمیشہ شاکر اور اللہ کی رضا پر راضی رہے۔ پھر قرطبی ایک حدیث تحریر کرتے ہیں۔ و عن انس بن مالک عن ابی طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما قَالَ شَکَوْنَا اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْجُوْعَ وَ رَفَعْنَا عَنْ حَجَرٍ حَجَرٍ فَرَفَعَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ حَجَرَیْنِ (اخرجہ ابو عیسیٰ ترمذی)۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، فرمایا کہ ہم نے حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھوک کی تکلیف کی شکایت کی اور کپڑا ہٹاکر پیٹ سے بندھا ہوا ایک ایک پتھر دکھایا، تو ہمارا یہ حال دیکھ کر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بطن اطہر سے بندھے دو پتھر دکھائے۔ غور کیا جائے کہ دو جہانوں کے سردار، نازک، نازنین، دلربا، جو اپنے حسن نزاکت کے سبب سے خالق کل کے محبوب بنے، ہم اور آپ کی خاطر کتنی تکالیف برداشت کرتے رہے ہیں؟ کیا آپ کی نرم و نازک طبع پر یہ تکلیفیں اثر انداز نہ ہوتی ہونگی؟ اے مسلمان! آپ سے زیادہ نازک مزاج، شفیق، رقیق القلب اور مہربان کون ہوسکتا ہے؟ آپ کی نرم و نازک طبع مبارک پر تکلیف کیسے اثر انداز نہ ہوتی ہوگی۔ لیکن اپنی امت کے لئے وسعت قلبی، اس بھاری ذمہ اور بڑی تکلیف کو اپنے اندر سمالیتی تھی۔

آپ کے پیارے چچا سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاتل حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام قبول کرنے کے وقت آپ کے سامنے آیا۔ وحشی رضی اللہ عنہ وہ شخص تھا جس نے جنگ احد میں سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ صرف نیزہ مارکر شہید کیا، بلکہ ان کی نعش مبارک کی سخت بے حرمتی کی۔ اتنی بے دردی سے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے چچا کی نعش مبارک دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے اور ان کو سید الشہداء کے عظیم لقب سے یاد فرمایا۔ وحشی رضی اللہ عنہ کو سامنے دیکھ کر فرمایا کہ ”اے وحشی! ہمارے سامنے مت بیٹھا کرو کہ تمہیں دیکھ کر ہمیں اپنے پیارے چچا سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ یاد آجاتے ہیں“۔ لیکن آپ کوئی بھی انتقامی کاروائی نہیں فرماتے، بلکہ حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے کی وجہ سے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اس کی عظیم غلطی کو درگذر فرماتے ہیں۔ حالانکہ اپنے پیارے چچا سے محبت کا یہ عالم ہے کہ ان کے قاتل کو سامنے دیکھ کر غمزدہ ہوجاتے ہیں۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا

آپ کے رقیق القلب ہونے کی دوسری مثال حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی نواسی قریب الوفات تھی۔ آپ اسے اپنی گود میں لئے بیٹھے تھے۔ اس چھوٹی سی معصوم بچی کی وفات آپ کے سامنے ہوئی۔ اُمّ ایمن جو آپ کی لونڈی تھی، یہ ماجرا دیکھ کر زور زور سے رونے لگی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کیا اللہ کے نبی کے سامنے بھی روتی ہو؟“ حالانکہ رقت قلبی اور محبت کی وجہ سے آپ کے آنسو مبارک جاری تھے۔ اس لئے اس نے عرض کیا کہ ”یا رسول اللہ! آپ خود بھی تو آنسو بہا رہے ہیں“۔ آپ نے فرمایا کہ ”یہ رونا نہیں ہے، بلکہ یہ خدا کی رحمت ہے کہ اپنے بندوں کے دلوں کو نرم فرمایا اور ان کے دلوں میں رحمت اور شفقت رکھی“۔

آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی صفت رحیمی سے موصوف ہونے کی عظیم مثال جس کی نظیر دنیا پیش نہیں کرسکتی۔ فتح مکہ کے دن مکہ کے وہ تمام کفار آپ کے سامنے پیش کیے گئے تھے جو متواتر اکتیس برس تک آپ کو تکلیف دیتے رہے، ہر طرح سے حضور صلّی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کو تنگ کرتے رہے، حتیٰ کہ ان کی وجہ سے آپ کو اپنا آبائی وطن مکہ مکرمہ چھوڑنا پڑا، صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کو مختلف ممالک کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ آج وہ ظالم کفار ہر طرح بے بس اور آپ کے رحم و کرم پر تھے۔ اگر آپ تمام کفار کو قتل کرنے کا حکم فرماتے تو فرما سکتے تھے، لیکن آپ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا ”آپ کو معلوم ہے کہ میں آپ کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟“ تمام کفار نے پرامید انداز میں جواب دیا ”آپ ہمارے شریف اور امین بھائی ہیں، ہم نے آپ کو ہر حال میں رحم کرتے دیکھا ہے“۔ آپ نے فرمایا ”آج میں تمہیں وہ کچھ کہتا ہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو فرمایا تھا کہ تمہارے لئے کوئی گرفتاری اور مواخذہ نہیں ہے، تم سب آزاد ہو۔“ سوچنے کا مقام ہے کہ ایک ظالم اگر گرفتار ہوکر مظلوم کے دربار میں آئے اس وقت وہ ظالم کیا امید کرسکتا ہے۔ یقینًا سخت انتقامی کاروائی کی امید کرے گا۔ لیکن رؤف رحیم رحمۃ للعالمین کا ایسا ممتاز دربار ہے، جہاں پہنچنے کے بعد آپ کی ذات اقدس کو دکھ دینے والا ظالم کافر بھی خود کو رحم و عفو کا مستحق سمجھتا ہے۔ یہ آپ کا خلق عظیم تھا جس نے سخت سے سخت دشمن کو بھی آپ کا شیدائی و جانثار عاشق بنا دیا۔ کتنے پیار اور قرب والے انداز میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب کے اعلیٰ اخلاق کی تعریف فرمائی ہے:

”اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ۝“ بیشک (اے محمد صلّی اللہ علیہ وسلم) آپ بڑے خُلق کے مالک ہیں۔

رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مندرجہ بالا آیت کا تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”وَیُقَالُ عَلیٰ مِنَۃٍ عَظِیْمَۃٍ وَّ ھِیَ الْاَخْلَاقُ الْحَسَنَۃُ الَّتِیْ اَکْرَمَہُ اللہُ بِھَا“۔ خلق عظیم کا معنیٰ منۃ عظیم کیا گیا ہے۔ ترجمہ: بیشک آپ اے محمد صلّی اللہ علیہ وسلم بڑی اچھائی والے ہیں اور وہ اچھائی اخلاق حسنہ ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزت عطا کی ہے۔ اس آیت کے ماتحت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تفسیر الدر المنثور میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول نقل فرمایا ہے

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ مَا کَانَ اَحَدٌ اَحْسَنُ خُلُقًا مِّنْ رَّسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا دَعَاہُ اَحَدٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ وَ لَا مِنْ اَھْلِ بَیْتِ اِلَّا قَالَ لَبَّیْکَ فَلِذَالِکَ اَنْزَلَ اللہُ تَعَالیٰ وَ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ کوئی بھی شخص اخلاق کے لحاظ سے حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین نہ تھا، اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا آپ کے گھر والے آپ کو پکارتے تھے تو آپ ہمیشہ لبیک سے جواب دیتے تھے۔ لبیک مخفف ہے اَلبُ لَکَ اَلْبَابًا کا، مطلب کہ حاضر ہوں تمارے لئے حاضر ہونا۔ پھر آپ کی اس عمدہ وصف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ بیشک اے میرے محبوب! آپ کا خلق عظیم منفرد ہے جو اپنے سے ادنیٰ لوگوں کی پکار کے جواب میں بھی انتہائی مشفقانہ انداز میں لبیک کہتے ہیں۔

آج ہم اپنے اخلاق کا جائزہ لیں کہ ہمارا رویہ اپنے والدین، پڑوسیوں، عزیز و اقارب اور کمتر حیثیت والے افراد کے ساتھ کس قدر درست رہتا ہے۔ کیا ہم ان کے بلانے پر لَبَّیک (حاضر جناب) کہہ سکتے ہیں؟ اور تو اور، والدین کے بلاوے پر ہمارا انداز کس قدر مؤدبانہ رہتا ہے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ کے حبیب حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی نافرمانی کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔

[اوپر]