
فہرست | الطاہر شمارہ نمبر ۴۵ جمادی الاول ۱۴۲۸ھ بمطابق جولائی ۲۰۰۷ع |
درس حدیثتوبہشیخ الحدیث علامہ عبدالقدیر شیخ طاہری
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ ترجمہ گناہ سے توبہ کرنے والا مثل اس شخص کے ہے جس پر گناہ نہ ہو (رواہ ابن ماجہ) مندرجہ بالا حدیث کی تشریح و توضیح میں پانچ باتیں بیان کی جاتی ہیں۔
۱۔ توبہ کی فضیلت اور تعریف: توبہ کی لفظی معنیٰ رجوع کرنا ہے اب یہ غور و فکر کی بات ہے کہ انسان کس چیز سے، کہاں سے، کس بات سے رجوع کرتا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ انسان عالم ارواح میں خدا سے ایک وعدہ کرکے آیا ہے کہ تو میرا رب ہے۔ جب خدا نے پوچھا اَلَستُ بِرَبکُم، انسان نے بلیٰ سے جواب دیا۔ اس کے بعد ایک امانت (احکام شرعیہ) انسان کے حوالے کردی گئی اس کو بھی انسان نے اٹھالیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے و حملہا الانسان (پ 22)۔ اب انسان نے جب دنیا پر ظہور کیا اور اس کی نشوونما ہوئی تو اس نے اپنے وعدے کو بھلادیا، خواہشات میں غرق ہوگیا تب اللہ تعالیٰ نے انسان کو متنبہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا یا ایہا الانسان ما غرک بربک الکریم (پارہ 30)۔ اے انسان کونسی چیز رب کے بھلانے کا سبب بنی۔ اگر انسان ایسا ہی رہا تو خسارے میں پڑجائیگا جیسے ارشاد ہے کہ والعصر ان الانسان لفی خسر (پارہ 30)۔ اب اگر خسارے سے محفوظ رہنا ہے اور اخروی نعمتوں کو حاصل کرنا ہے تو وہ عہد جو رب کریم سے انسان کرکے آیا ہے اس کو پورا کرنا ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اوفوا بعہدی اوف بعہدکم (پارہ1) اے لوگو مجھ سے جو وعدہ کرکے آئے ہو وہ پورا کرو تو میں بھی تم سے اپنا وعدہ پورا کروں گا، نعمتوں اور نوازشوں سے نواز دوںگا اور اپنے دیدار کی نعمت بھی عطا کروں گا۔ اور ان لوگوں کی خدا تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے جو لوگ امانت اور عہد کا پاس رکھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے والذین ہم لاماناتہم و عہدہم راعون (پارہ 18)۔ حاصل یہ ہے کہ انسان جب گناہ کرتا ہے تو خدا سے دور ہوجاتا ہے اور ایسے میدان میں پہنچ جاتا ہے جو خدا کا ناپسندیدہ ہے۔ اب جب توبہ کرتا ہے تو اس میدان سے لوٹتا ہے اور پسندیدہ مقام کی طرف دوڑتا ہے۔ تو عموما توبہ کے لفظ کا ورد تو زبان پر ہوتا ہے لیکن عام انسان کو توبہ کی حقیقت کا علم ہی نہیں ہوتا کہ توبہ کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اپنا ہاتھ کان اور ناک پر لگاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہماری توبہ ہوگئی حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ جاننا چاہیے کہ توبہ تین چیزوں کا نام ہے۔ اول علم، دوسرا حال، تیسرا فعل۔ علم: علم سے یہ غرض ہے کہ اس بات کو انسان جانے کہ گناہوں کا نقصان بہت بڑا ہے خواہ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ گناہ کا مثال انگارے جیسا ہے، اگر وہ چھوٹا ہوگا تب بھی جلائے گا اور بڑا ہوگا تب بھی جلائے گا۔ بعض بزرگان دین نے تو صغیرہ کبیرہ گناہوں کی تقسیم سے ہی انکار کردیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہے وہ خواہ نظر میں چھوٹی ہی کیوں نہ ہو رب ذوالجلال کی عظمت کی وجہ سے وہ بڑی ہے۔ بہرحال انسان اپنے ذہن میں، اپنے دل و دماغ میں یہ بات بٹھادے کہ گناہ خسارے کا سبب ہے اور گناہ محبوب رب العالمین اور انسان کے درمیان حجاب اور آڑ کا سبب ہے۔ یہ جاننا توبہ کا پہلا جز ہے۔ اب انسان یہ سمجھ لے کہ توبہ کی شروعات ہوئی ہے۔ حال: اب اس بات کو جاننے کے بعد محب کو بحیثیت عاشق محبوب کے ناراض ہونے اور محبوب کی دوری کا فکر لاحق ہوتا ہے اور وہ عمل جو محبوب رب العالمین کی دوری کا سبب بنا اس پر افسوس ہوتا ہے اور اپنے کیے ہوئے پر پچھتاوا ہوتا ہے اور پشیمانی ہوتی ہے۔ اس ندامت کو حال کہا جاتا ہے، یہ توبہ کا دوسرا جز ہے۔ فعل: اس پشیمانی اور پریشانی کے بعد انسان کو چاہیے وہ عہد کرے اور ماضی، حال و مستقبل اس عہد میں شامل کرے۔ ماضی اس طرح کہ جو گناہ کیا ہے اگر وہ قابل قضا ہے تو قضا کرے، اگر کسی طرح بھی تلافی معافی ہوسکتی ہے تو وہ تلافی کرے اور حال میں اپنی حالت کو درست کرلے، سر بسجود ہوکر رب تعالیٰ سے معافی مانگے، جتنا ہوسکے گڑگڑائے روئے اپنی آنکھوں سے آنسوبہائے۔ اگر ایسا کرے گا تو رحمت ایزدی اس بندے پر برسنا شروع ہوجائے گی۔ جس طرح رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ من تذکر خطایاء و بکیٰ عیناہ رضی منہ اللہ۔ ترجمہ جس شخص نے اپنی خطاؤں کو یاد کیا اور اپنے آنسووں کو بہایا تو اس شخص سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجاتا ہے۔ اور توبہ میں مستقبل بھی شامل کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ کے لیے یہ پختہ عزم کرے کہ یہ گناہ اور ہر ایسا فعل جو محبوب رب العالمین کے ناراض ہونے کا سبب ہے وہ چھوڑدوں گا، کبھی بھی اس کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ یہ عزم ہوگیا تو توبہ کا تیسرا جز حاصل ہوگیا اور یہی توبہ کی حقیقت اور تعریف ہے، باقی زبان سے صرف توبہ توبہ کا لفظ کہنا اور کان اور ناک پر ہاتھ لگانا اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جس طرح کسی بزرگ نے کہا ہے کہ تسبیح بر کف توبہ بر لب در دل ارادہ گناہ معصیت را خند می آید بر استغفار ہاتھ میں تسبیح ہو اور ہونٹ پر توبہ ہو اور دل گناہوں سے پاک نہ ہو تو ایسی توبہ پر تو گناہ کو بھی ہنسی آتی ہے۔ ایسی استغفار کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ۲۔ توبہ کی حیثیت کیا ہے: حیثیت کا مطلب یہ ہے کہ آیا توبہ کرنا فرض ہے، واجب ہے، سنت ہے یا مستحب۔ اس لیے یہ سمجھنا چاہیے کہ جو چیز محبوب کے ملنے کا باعث ہو اور سعادت ابدی تک پہنچنے کے لیے ذریعہ ہو، ہلاکت ابدی سے بچنے کے لیے ضروری ہو تو عقل بھی مانتا ہے کہ ایسی چیز کا اختیارکرنا واجب اور ضروری ہے۔ باری تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے و توبوا الی اللہ جمیعا ایہا المؤمنون لعلکم تفلحون (پارہ 8)۔ ترجمہ اور توبہ کرو اللہ کے آگے سب مل کر تاکہ تم فلاح پاؤ۔ جو لوگ اپنی خطاؤں اور گناہوں کے وجہ سے خسارہ کے میدان میں پہنچ چکے ہیں وہ اگر فلاح حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے صرف اور صرف توبہ کا راستہ ہے اور یہ ’توبوا‘ امر کا صیغہ ہے۔ امر وجوب کے لیے آتا ہے۔ معلوم ہوا توبہ واجب ہے اور اس سے فلاح کیوں نہ حاصل ہوگی کیونکہ توبہ سے انسان کو ندامت حاصل ہوتی ہے اور رقت قلب پیدا ہوتی ہے، انسان کا دل ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ جب یہ کیفیت ہوجاتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے جیسے کہ حدیث قدسی میں ہے کہ انا عند منکسرۃ القلوب۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں وہاں ہوتا ہوں جہاں دل ٹوٹا ہوا ہوتا ہے یعنی پشیمانی اور خدا کی محبت سے جب دل لبریز ہوتا ہے تو وہ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کہ دل ریزہ ریزہ ہو رہا ہے۔ اس حالت میں بعض انسانوں پر تو وجد بھی طاری ہوجاتا ہے۔ یہ کیفیت رضاء باری تعالیٰ کا باعث ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوئی۔ اس کی دل میں اتنی تو ندامت پیدا ہوئی کہ وہ ایک طرف نکل گیا اور وہاں زار و قطار رونے لگا اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کو وحی فرمائی کہ اے میرے رسول فلاں آدمی کو میرا سلام پہنچاؤ اس کی ندامت مجھے بہت پسند آئی ہے۔ جب ندامت میں انسان اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے تو وہ نفس بھی خدا کو پیارا لگتا ہے اس لیے رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ندامۃ کو بھی توبہ قرار دیا ہے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ الندامۃ توبۃ۔ ندامت اصل توبہ کا روح اور حقیقت ہے۔ ۳۔ کس وقت بندے کو توبہ کرنی چاہیے: گنہگار کو چاہیے کہ توبہ کی طرف بہت جلد مبادرت کرے۔ ایسا نہ ہو کہ گناہوں کا زہر ایمان کے روح میں تاثیر کر جائے اور پھر طبیبوں کے ہاتھ سے اس کا علاج نکل جائے اور اس کے بعد نہ کوئی پرہیز اثر کرے نہ وعظ و نصیحت کام آئے اور تباہ کاروں میں لکھ دیا جائے اور اس آیت کریمہ کا مصداق بن جائے ”و جعلنا من بین ایدیہم سدا و من خلفہم سدا فاغشینا ہم فہم لا یبصرون و سواء علیہم اءنذرتہم ام لم تنذرہم“ (پارہ 22) ترجمہ ہم نے ان کے سامنے اور ان کے پیچھے دیوار بنادی پھر وہ ان کے اوپر حاوی ہوگئی اور وہ دیکھ نہیں سکتے، اور برابر ہے کہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں۔ تو جب انسان گناہ کرتا ہے تو قلب پر ایک سیاہ نقطہ آجاتا ہے۔ اس طرح گناہوں سے وہ نقطے بڑھتے جاتے ہیں، پھر قلوب سخت ہوجاتے ہیں جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے ”فہی کالحجارۃ او اشد قسوۃ“ قلوب پتھر کے مانند ہوجاتے ہیں یا اور بھی زنگ میں سیاہ ہوجاتے ہیں اور ایسے قلوب کو تالے بھی لگ جاتے ہیں جیسے ارشاد ایزدی ہے ”ام علی قلوب اقفالہا“ کیا ان کے قلوب پر تالے لگ گئے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ گناہ کرنے کے بعد قلب کو تالا لگ جائے اور رحمت خداوندی اس میں داخل نہ ہوسکے جیسا کہ آئینے پر زنگ آجانے کی وجہ سے زنگ اس کو بگاڑ دیتا ہے کہ پھر قابل مستعمل اور صیقل نہیں رہتا، اس میں صورت صحیح نظر نہیں آتی۔ تو انسان بھی اگر چاہتا ہے میرے دل میں باری تعالیٰ کی صورت نظر آئے تو اسے اپنا دل صاف رکھنا ہوگا، توبہ سے دل کا زنگ دور کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے کلا بل ران علیٰ قلوبہم ماکانوا یکسبون۔ ترجمہ: یہ اس لیے ہدایت نہیں لیتے کہ ان کے قلوب اپنے کیے ہوئے افعال کی وجہ سے سے زنگ آلود ہوگئے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ”ان اکثر صیاح اہل النار من التسویف“ بیشک دوزخیوں کا زیادہ چیخنا تاخیر کے باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے ”انما التوبۃ علی اللہ للذین یعملون السوء بجہالۃ ثم یتوبون من قریب فاولٰئک یتوب اللہ علیہم وکان اللہ علیما حکیما۔“ (پارہ 4 النساء) ترجمہ: وہ توبہ جس کا قبول کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے لازم کرلیا ہے وہ انہیں کی ہے جو نادانی سے برائی کر بیٹھے پھر تھوڑی دیر میں توبہ کرے، ان لوگوں پر اپنی رحمت سے اللہ تعالیٰ رجوع فرماتا ہے اور اللہ علم و حکم والا ہے۔ لہٰذا توبہ میں تعجیل (جلدی) کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ارشاد باری تعالیٰ ہے: و لیست التوبۃ للذین یعملون السیئات حتیٰ اذا حضر احدہم الموت قال انی تبت الاٰن ۔(پارہ 4) ترجمہ: اوران لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوگی جو گناہوں میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آئے تو کہے اب میں نے توبہ کی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وسارعوا الیٰ مغفرۃ من ربکم (پارہ4آل عمران) ترجمہ: اور جلدی کرو مغفرۃ کی طرف۔ اور مغفرۃ توبہ سے ہی ملتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: وانی لغفار لمن تاب۔ بیشک میں بخشنے والا ہوں اس شخص کے لیے جس نے توبہ کی۔ اس لیے توبہ میں جلدی کرنی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ تاخیر کرنے کی وجہ سے قیامت کے دن افسوس کرنا پڑے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے یٰحسرتی علی ما فرطت فی جنب اللہ (پارہ 24) افسوس میں نے اللہ کے حقوق میں کمی کوتاہی کی اور اس کی کوئی تلافی نہیں کی۔ حدیث شریف میں ہے کہ مؤمن اپنے گناہ کو ایسا جانتا ہے کہ گویا ایک پہاڑ اوپر آگیا ہے اب سر پر گر پڑے گا، اور منافق اپنی خطا کو ایسا سمجھتا ہے جیسے ناک پر مکھی بیٹھی اور اس کو اڑادیا۔ (جاری ہے)
|