فہرست الطاہر شمارہ نمبر 46
شعبان 1428ھ بمطابق اگست 2007ع

مکتوب مبارک

امام ربانی مجدد و منور الف ثانی

رحمۃ اللہ علیہ


تسویف اور تاخیر سے منع کرنے اورجھڑکنے اور شریعت کی متابعت پر ترغیب دینے اور اس کے مناسب بیان میں محمد شریف کی طرف صادر فرمایا ہے.

 

اے فرزند! آج فرصت کا وقت ہے اور جمعیت کے اسباب سب مہیا ہیں۔ توقف اور تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔ بہتر وقت کو جو جوانی کا وقت ہے، بہتر عملوں میں جو مولیٰ کی اطاعت و عبادت ہے صرف کرنا چاہیے، اور محرمات و مشتبہات سے بچ کر پنج وقتی نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ نصاب کے ہونے پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروریات اسلام سے ہے۔ اس کو بھی رغبت اور سنت سے ادا کرنا چاہیے۔

حق تعالیٰ نے اپنے کمال کرم سے تمام دن رات میں پنج وقت عبادت کے لیے مقرر کیے ہیں اور بڑھنے والے مالوں اور چرنے والے چار پاؤں سے چالیسواں حصہ تحقیقاً اور تقریباً فقراء کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ اور مباحات خرچوں کا میدان فراخ کردیا ہے۔ تو پھر کس قدر نا انصافی ہے کہ دن رات کی ساتھ گھڑیوں میں سے دو گھڑی بھی حق تعالیٰ کی بندگی پر صرف نہ ہوں، اور چالیس حصوں میں سے ایک حصہ بھی فقراء کو ادا نہ کیا جائے۔ اور مباحات کے وسیع دائرہ سے نکل کر محرمات اور مشتبہات میں جا پڑیں۔

جوانی کے وقت جب نفس امارہ اور شیطان لعین کا غلبہ ہے، تھوڑے عمل کو بہت سے اجر کے عوض قبول کرتے ہیں۔ اور کل جب کہ بڑھاپے کی عمر تک پہنچ جائیں گے اور حواس اور قوتیں سست ہوجائیں گی اور جمعیت کے اسباب پراگندہ ہوجائیں گے تو سوائے ندامت و پشیمانی کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اور ممکن ہے کہ کل تک مہلت نہ دیں اور ندامت و پشیمانی کا موقع بھی جو ایک قسم کی توبہ ہے ہاتھ نہ آئے، اور ہمیشہ کا عذاب جس کی نسبت پیغمبر صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خبر دی ہے اور گنہگاروں کو اس سے ڈرایا ہے در پیش ہے، اس میں کچھ خلاف نہیں ہے۔ آج شیطان خدا کے کرم پر مغرور کرکے سستی میں ڈالتا ہے اور اس کی عفو کا بہانا بناکر گناہ کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔

جاننا چاہیے کہ دنیا آزمائش اور ابتلا کا مقام ہے۔ اس میں دشمن و دوست دونوں کو ملایا ہوا ہے اور دونوں کو رحمت میں شامل کیا ہے۔ ”وسعت رحمتی کل شیء“ میری رحمت نے سب چیزوں کو گھیرلیا ہے، اسی بات پر شامل ہے۔ لیکن قیامت کے ان دشمن کو دوست سے جدا کردیں گے۔ ”وامتازو الیوم ایھا المجرمون“ اے مجرمو آج الگ ہوجاؤ، اسی مضمون کی خبر دیتی ہے۔ اس وقت رحمت کا قرعہ دوستوں کے نام ڈالیں گے اور دشمنوں کو محرم و مطلق اور لعنت کا مستحق فرمائیں گے۔ ”فساکتبہا للذین یتقون ویؤتون الزکوٰۃ والذین ہم باٰیٰتنا یومنون“۔ میں اس کو ان لوگوں کے لکھوں گا جو مجھ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور میری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں، اسی مطلب کا گواہ ہے۔ یعنی میں رحمت کو ان لوگوں کے لیے ثابت کروںگا جو کفر و معاصی سے بچتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ پس کرم و رحمت آخرت میں نیکوکار اور پرہیزگار مسلمانوں کے لیے ہاں مطلق اہل اسلام کے لیے بھی خاتمہ بالخیر ہونے کا کچھ حصہ ہے، اگر چہ بیشمار زمانوں کے بعد دوزخ کے عذاب سے نجات پائیں گے۔ لیکن گناہوں کی سیاہی اور آسمانی نازل ہوتے ہوئے احکام کی پرواہ نہ کرنا ایمان کو کب سلامت لیجانے دیتا ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ صغیرہ پر اصرار کرنا کبیرہ تک پہنچادیتا ہے۔ اور کبیرہ پر اصرار کرنا کفر تک لیجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بچائے۔

اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم
کہ دل آوردہ شوی ورنہ سخن بسیار است

ترجمہ۔

غم دل اس لے تھوڑا کہا ہے تجھ سے اے مشفق
کہ آزردہ نہ ہوجائے بہت سن سن کے دل تیرا

حق تعالیٰ حضرت محمد رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اپنی مرضیات و پسندیدہ کاموں کی توفیق دے۔

بقیہ مقصود یہ ہے کہ حامل رقیمہ ہذا مولانا اسحاق فقیر کا مخلص اور آشنا ہے اور قدیم سے ہمسائیگی کا حق بھی رکھتا ہے، اگر مدد اعانت طلب کرے تو اس کے حال پر توجہ فرمائیں۔ مشار الیہ فن کتابت اور افشا میں اچھی مہارت رکھتا ہے۔

والسلام