
فہرست | الطاہر شمارہ نمبر 46 شعبان 1428ھ بمطابق اگست 2007ع |
قرآن و سنت کی روشنی میںعورت کا مقاممحمد شکیل طاہری
اسلام میں عورتوں کو ہر حیثیت سے عزت و عظمت عطا کی گئی۔ انہیں وہ تمام حقوق دیے گئے جن کی وہ مستحق تھیں۔ اسلام نے عورتوں کو جو مقام و مرتبہ، عزت و وقار عطا کیا ہے اس کا تصور کسی اور مذہب میں نہیں ملتا۔ تعلیم کے میدان میں ہم دیکھیں تو یکساں ہیں، احادیث مبارکہ میں دونوں پر یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے۔ اس طرح دعوت دین کے لیے بھی مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو قرآن نے سرگرم رول عطا کرنے کی دعوت دی ہے اور کہا کہ ترجمہ: ”بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور خدا کو کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا گیا ہے“۔ اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے مردوں اور عورتوں کو برابری کا درجہ دیا اور فرمایا دونوں کی مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ ان صفات پر مشروط ہے۔ عورتیں ان اصولوں کو اپنا کر اخلاص و روحانی ترقی کے بلند مرتبے تک پہنچ سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت بغیر کسی تخصیص کے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے عام ہے اور آخرت میں کامیابی و سرخروئی حاصل کرنے کا جو معیار مردوں کے لیے بنایا گیا ہے وہی عورتوں کے لیے بھی ہے۔ اس لیے دونوں کو یکساں فکر آخرت کرنی چاہیے۔ ایک اور مقام پر فرما گیا ”اور عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر وہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں“۔ اسلام میں دونوں کے حقوق برابر ہیں۔ اللہ کے نزدیک زیادہ محترم وہ ہے جو تقویٰ میں بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا ہے جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ایسے لوگ ہی جنت میں داخل ہونے کے حق دار ہونگے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔ پھر قرآن میں ہمیں ایک بڑی مثال ملتی ہے کہ پوری سورت ہی ایک محترمہ عورت کی شخصیت پر اتاری گئی جوکہ سورت مریم ہے۔ اللہ رب العزت ان کا نام لیکر ان کی تعریف فرماتا ہے، اللہ ایمان والوں کے لیے مثال بیان کرتا ہے فرعون کی بیوی کی، جب اس نے دعا کی: اے میرے رب میرے لیے جنت میں ایک گھر بنادو، مجھے نجات دے فرعون سے اور اس کے عمل سے اور مجھے نجات دے ظالموں کی قوم سے۔ اور مریم بنت عمران کی مثال بیان کرتا ہے جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی، پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی اور اس میں اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمانبردار میں سے تھیں۔ (سورۃ التحریم) سورۃ مجادلہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے عورت کی بات سنی اور اس کا جواب دیا۔ فرمایا گیا ”اللہ تعالیٰ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملے میں تم سے تکرار کرتی ہے اور اللہ سے فریاد کئے جاتی ہے، اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، وہ سب کچھ دیکھنے والا اور سننے والا ہے“۔ یہ خولہ بنت ثعلبہ تھیں جن کے واقعہ کو رہتی دنیا تک محفوظ کردیا گیا۔ قرآن ہمیں بہت اور اچھی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلّی اللہہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہیں اور ان کا انجام بھی بتاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”اس دن جبکہ تم مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کے دیکھو گے کہ ان کا نور آگے آگے اور بائیں جانب دوڑ رہا ہوگا، ان سے کہا جائے گا کہ آج بشارت ہے تمہارے لیے جنتیں ہونگی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہونگی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ ہے بڑی کامیابی۔ اس دن منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مؤمنوں سے کہیں گے کہ ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں، مگر ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے ہٹ جاؤ اپنا نور کہیں اور تلاش کرو، پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا، اس دروازے کے اندر رحمت ہوگی اور باہر عذاب سخت ترین ہوگا“۔ (سورۃ الحدید) پھر اگر ہم عبادت کے حوالے سے دیکھیں تو اسلام کی عبادات میں بھی دونوں کے حصے برابر ہیں، مثلاً نماز، روزہ، حج، زکواۃ ساری چیزوں میں آپ یکسانیت پائیں گے۔ عورت اور مرد میں کوئی تفریق اگر ہوتی تو بیبی ہاجرہ کی اس سعی کو اللہ تعالیٰ نشانی کے طور پر نہ رکھتا جو کہ قیامت تک کے لیے لازمی رکن ہے، حج کے لیے اس کو ایک لازمی رکن کا درجہ نہ ملتا۔ یہ بھی ایک خاتون ہی تھیں جن کا ایک عمل رب العالمین کو اتنا پسند آگیا کہ آج بھی لوگ اس کی پیروی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ایک سماجی برائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈرایا گیا ہے کہ بچیوں کو مت مارو، پوچھا جائے گا کہ تم کو کس جرم میں قتل کیا گیا تھا۔ (التکویر) اسی طرح جگہ جگہ قرآن میں عورتوں کے حقوق اور ان کی عزت و تکریم کی بات کہی گئی
ہے۔ اس طرح کہیں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی شکل میں عورت کو ایک اہم درجہ دیا گیا ہے جس سے اپنے دین اور دنیا دونوں کو سنوارا جاسکتا ہے، سماجی برائیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اسلام نے اس کا بڑا خیال رکھا ہے کہ ماں، بیٹی، بیوی، بہن کو کتنا حصہ ملے گا، یہ طے کردیا گیا ہے۔ فوراً یا پھر جلد از جلد دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اسلام نے چودہ سو سال سے یہ حق عورت کو دے دیا تھا کہ وہ ہر میدان میں، زندگی کے ہر شعبے میں اپنے جوہر دکھا سکتی ہے، لیکن بنیادیں اسلامی ہوں۔ اسلام نے عورت کو بلند ترین مقام عطا کیا۔ اسلام نے عورت کو عظمت عطا کی۔ احادیث میں بیٹی کو رحمت اور ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت دے کر اس کی عظمت کا اظہار کیا گیا۔ بیویوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی گئی۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے بہت سے علاقوں اور طبقوں میں آج بھی لڑکی کو بوجھ اور مصیبت سمجھا جاتا ہے۔ اس کے پیدا ہونے پر گھر میں خوشی کے بجائے افسردگی اور غمی کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ اسلام سے قبل عربوں کی کساوت قلبی کی داستان تاریخ کے اوراق پڑھتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس دور میں صنف نازک کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، اس بے چاری کو باعث عار تصور کیا جاتا تھا اور اس کا یہ حق بھی نہیں سمجھا جاتا تھا کہ اسے زندہ رہنے دیا جائے۔ بہت سے باپ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی نومولود بچیوں کا گلا گھونٹ کر ان کا خاتمہ کردیتے تھے یا ان کو زندہ زمین میں دفن کردیتے تھے۔ ان کا یہ حال قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ”جب ان میں کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی خبر سنائی جاتی تو وہ دل مسوس کے رہ جاتے ہیں، لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، ان کو منہ نہیں دکھانا چاہتا ہے اس کی وجہ سے جس کی اسے خبر ملی ہے، سوچتا ہے کیا اس نومولود بچی کو ذلت کے ساتھ باقی رکھے یا اس کو کہیں لے جاکر مٹی میں دبادے“۔ (سورۃ النحل) چنانچہ اس تاریک دور میں اللہ تعالیٰ نے صنف نازک کی دعا قبول فرمائی۔ فاران کی چوٹی سے ہدایت کی کرنیں پھوٹ پڑیں اور سرور عالم صلّی اللہ علیہ وسلم کی آمد ہوئی تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے حق میں وہ مثالی قانون لے کر آئے جس کی نظیر تاریخ عالم میں کہیں نہیں ملتی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو جاہلیت کی بندشوں اور روایات سے نجات بخشی، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے رواج کو ختم کیا اورعورتوں کو وراثت میں شریک کیا۔ خطبہ حجۃ الوداع کے تاریخی موقعے پر یوم عرفہ میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لوگو تم نے ان کو اللہ کے نام کے واسطے حاصل کیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک، ادائے حقوق اور بہتر معاشرت کی ترغیب دی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اولاد کے لیے ماں کی خدمت کا اجر حج و جہاد سے افضل ہے، یہاں تک فرمایا کہ ان کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ جب ماں کے قدموں کا یہ درجہ ہے تو اس مقدس ماں کا کیا درجہ ہوگا۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو اتنا بلند مقام عطا کیا، ورنہ دیگر اقوام نے تو اس کو جنس انسانی ہی سے خارج کردیا تھا۔ مثلاً یونانیوں نے تو عورت کو سانپ سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا، چنانچہ سقراط کا کہنا تھا کہ عورت سے زیادہ اور کوئی چیز دنیا میں فتنہ و فساد کی نہیں۔ یوحنا کا قول ہے کہ عورت شر کی بیٹی ہے، امن و سلامتی کی دشمن ہے۔ عیسائیوں کی سب سے بڑی حکومت رومۃ الکبریٰ میں عورتوں کی حالت لونڈیوں سے بھی بدتر تھی، ان سے جانور کی طرح کام لیا جاتا تھا اور ذہن تھا کہ اس کو آسائش کی ضرورت نہیں۔ معمولی قصور پر عورت کو ذبح کردیا جاتا تھا۔ رومن کیتھولک فرقے کی تعلیمات کی رو سے عورت کلام مقدس کو چھو نہیں سکتی اور اسے گرجا گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ غرض ہر طرف سے عورت پر ظلم کا دور دورہ تھا۔ دور جاہلیت میں عورت جائیداد کی مانند ورثا میں منتقل ہوتی تھی۔ ہندؤں میں عورت کو خاوند کے مرنے پر اس کے ساتھ جلنا پڑتا تھا۔ ان تمام تر مظالم اور غیر انسانی تعلیمات کے باوجود قرآن پاک میں عورت کے لیے باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ عورتوں کے مردوں پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مرودں کے حقوق عورتوں پر ہیں۔ (البقرہ) آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سب سے اچھے اخلاق والا وہ ہے جو اپنے اہل و اعیال کے ساتھ زیادہ اچھا ہے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے حصول علم کے لیے دونوں کو مخاطب فرمایا۔ جنگ میں قید ہوکر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی رضائی بہن اور سفانہ بنت حاتم طائی آئیں تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ان کا احترام و اعزاز فرمایا اور ان کے قبیلوں کو ان ہی کی سفارش پر رہائی و آزادی بخشی۔ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی عورت کو مقام ملا ہے تو وہ اسلام کی نسبت ہی سے ہے۔ اسلام کی بدولت عورت کو اعلیٰ ترین مقام ملا۔ قرآن مجید کے بعد احادیث رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں بھی عورت کی عظمت و اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
|