
فہرست | الطاہر شمارہ نمبر 46 شعبان 1428ھ بمطابق اگست 2007ع |
درس قرآنچار اچھے رفیققسط ۔ 2شیخ التفسیر علامہ حبیب الرحمٰن گبول
آیت 69 اور 70 سورۃ النساء اسی موضوع پر حضرت امام ربانی مجدد و منور الف ثانی قدس سرہ ملا حسینی رحمۃ اللہ علیہ کے نام تحریر فرماتے ہیں ”حق تعالیٰ محبت ایں طائفہ علیہ را روز بروز زیادہ گرداناد و نیازمندی نسبت بایشاں سرمایۂ روزگار سازد بحکم المرء مع من احب محبان ایشان با ایشانند کہ جلیس ایشان از شقاد محفوظ است“۔ (مکتوب 203 دفتر اول حصہ دوم) ترجمہ۔ اللہ تعالیٰ اس بلند مقام گروہ کی محبت میں دن بدن اضافہ فرمائے اور ان سے نیاز مندی کی نسبت کو سرمایہ زندگی بنائے ۔ حدیث شریف ہے ”جس کی جس کے ساتھ محبت ہوگی (کل قیامت کے دن) اس کے ساتھ ہوگا“ کے موجب ان سے محبت کرنے والا ان کے ساتھ ہوگا کہ ان لوگوں کا ہم نشین کبھی بدبخت نہیں ہوتا۔ اسی مکتوب شریف میں آگے چل کر فرماتے ہیں ”صحبت ایں طائفہ از جملہ ضروریات است حق سبحانہ و تعالیٰ در صحبت ایشاں اندازد۔ گرد مستان گرد اگر کسے کم رسد بوئے رسد گرچہ بوئے ہم نباشد رؤیت ایشاں بس است“۔ ترجمہ: اس گروہ اولیاء اللہ کی صحبت نہایت ضروری ہے، اللہ تعالیٰ ان کی صحبت نصیب فرمائے۔ شعر ”ان مستوں (اللہ کی یاد میں مست) کے پاس جاؤ، اگر ان کے یہاں سے شراب (کمال معرفت) حاصل نہ ہوئی تو اس کی خوشبو (کسی حد تک قرب الٰہی) تو حاصل ہوجائے گی، اگر یہ خوشبو بھی میسر نہ ہوئی تو انکی زیارت ہی کافی ہے“۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”مثل الجلیس الصالح والسوء کحامل المسک ونافخ الکیر فحامل المسک ان یحذیک و اما ان تبتاع منہ واما ان تجد منہ ریحا طیبۃو نافخ الکیر اما ان یحرق ثبابک و اما ان تجد منہ ریحا خبیثۃ متفق علیہ“۔ یعنی نیک ہم نشین اور برے ہم نشین کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی جلانے والے کی سی ہے۔ کستوری والا یا تو خود ہی تجھے کچھ دے دیگا یا تو اس سے خرید لیگا یا تو اس سے خوشبو پائیگا کہ جب تک اس کے پاس رہے گا تجھے کستوری کی خوشبو سنگھائی دیتی رہے گی، اور بھٹی جلانے والا یا تو تیرے کپڑے جلادیگا کہ چنگاریاں اڑکر تیرے کپڑوں کو جلاتی رہیں گی، یا تجھے اس سے بدبو پہنچتی رہے گی۔
ہم نشینی مقبلاں چوں کیمیا است اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی صحبت کیمیا کی مانند ہے، جب ان کی نظر کرم کیمیا ہے تو وہ خود کیا ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا جو شوق و محبت کے بغیر بھی اگر اہل اللہ کے پاس جاتے ہیں تو وہ بھی محروم نہیں رہتے، ان کو بھی کچھ نہ کچھ فیض مل ہی جاتا ہے۔ چنانچہ ذکر کے متعلق مروی ایک تفصیلی حدیث شریف کے آخر میں ہے کہ فرشتے بارگاہ الٰہی میں عرض کریں گے کہ یا رب ذکر والوں کی اس مجلس میں فلاں آدمی تو ذکر کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ اپنی کسی حاجت کے لیے وہاں آیا تھا، تو حق تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ”ھم الجلساء لایشقیٰ جلیسھم“ کہ یہ ایسے ہم نشین ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا۔ معیت کی کیفیت اس آیت مبارکہ سے یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلّی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والوں کو جنت میں مذکور بالا چار قسم کے مقربین کی معیت و رفاقت حاصل ہوگی، لیکن اس کی کیفیت مجمل رہی جس کی مفسرین کرام نے درج ذیل متعدد صورتیں ذکر کی ہیں پہلی صورتجنت کے تمام طبقات کے افراد اپنے اپنے مقامات سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہیں گے، جیسا کہ علامہ محمد بن محمد عمادی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ”ولیس المراد بالمعیۃ الاتحاد فی الدرجۃ ولا مطلق الاشتراک فی دخول الجنۃ بل کونہم فیہا بحیث یتمکن کل واحد منہم من رؤیۃالاٰخر وزیارتہ متیٰ اراد وان بعد ما بینہمامن المسافۃ“۔ صفحہ 199 تفسیر ابوسعود یعنی معیت (ایک ساتھ ہونے) سے یہ مراد نہیں ہے کہ سبھی جنت کے ایک ہی درجے میں ہونگے اور نہ یہ کہ مطلق جنت میں داخل ہونے میں شریک ہونگے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ وہ جنت میں اس طور پر رہیں گے کہ ان میں سے جب بھی کوئی چاہے گا دوسرے کو دیکھ لے گا اور اس کی زیارت کرلے گا اگرچہ انکے درمیان زیادہ فاصلہ ہو۔ صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی اسکی تائید ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اہل جنت کھڑکیوں میں سے اپنے اوپر کے طبقات والوں کو دیکھ لیں گے جیسا کہ تم دنیا میں ستاروں کو دیکھتے ہو۔ دوسری صورتاعلیٰ درجات والے ادنیٰ درجہ والوں کے پاس آجایا کریں گے، جس کی تائید اس حدیث شریف سے ہوتی ہے کہ اس آیت کریمہ کی تفسیر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اونچے درجات والے نچلے درجات والوں کی طرف اتر آیا کریں گے اور پھر جنت کے باغات میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کریں گے اور اسکی حمد و ثنا کہا کریں گے۔ تیسری صورتادنیٰ درجہ والوں کی اعلیٰ درجہ والوں کے پاس ملاقات کے لیے جانے کی اجازت ہوگی۔ غرض یہ کہ ملاقات و زیارت کی صورت خواہ کچھ ہو اس سے کچھ غرض نہیں، اصل مقصودی اور بنیادی بات یہ ہے کہ اللہ عزوجل اور اس کے حبیب صلّی اللہ علیہ وسلم کی اطاعۃ و اتباع کرنے والوں کو بروز قیامت قرب الٰہی حاصل ہوگا اور ان مقدس و مطہر بزرگ ہستیوں کی رفاقت و معیت حاصل ہوگی جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو پیارے اور مقرب ہیں۔ اللّٰہم اجعلنا منہم بحرمۃ حبیبک صلّی اللہ علیہ وسلم رفاقت کے لیے محبت شرط اول ہے۔ صحیح بخاری شریف میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر جماعت سے روایت متواترہ سے ثابت ہے کہ جب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ اس شخص کا کیا مقام ہوگا جو کسی جماعت سے نسبت و محبت تو رکھتا ہے لیکن عمل میں ان کے درجہ تک نہیں پہنچا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”المرء مع من احب“ یعنی بروز قیامت ہر ایک شخص اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اسے محبت ہوگی۔ (گو عمل میں ان سے کم تر کیوں نہ ہو) رفاقت کے لیے عبادت ضروری ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ صحابی رسول حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ نے نماز تہجد کے وقت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وضو کا پانی اور مسواک وغیرہ لاکر پیش کیے تو نبی رحمت صلّی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہوکر ارشاد فرمایا ’سلنی‘ مجھ سے مانگو جو چاہو۔ جواب میں عشق و محبت میں مستغرق صحابی رسول رضی اللہ عنہ نے دنیا دولت یا جنت طلب کرنے کی بجائے عرض کیا ”یا رسول اللہ اسئالک مرافقتک فی الجنۃ“۔ یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم مجھے جنت میں آپکی رفاقت و صحبت چاہیے۔ اس پر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ اور مانگو، انہوں نے عرض کیا بس حضور یہی چاہیے۔ یہ سنکر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاعنی علیٰ نفسک بکثرۃ السجود۔ تو پھر کثرت سے سجدوں کی صورت میں میری مدد کرو۔ (تو تمہارا یہ مقصد صحبت و رفاقت حاصل ہوگا) رفاقت کے لیے والدین کی اطاعت ضروری ہے۔ مسند احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ولاشریک لہ ہونے کی شہادت دے چکا ہوں اور آپ کو اللہ کا سچا رسول مانتا ہوں، پانچوں وقت نماز پابندی سے ادا کرتا ہوں، زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہوں، ماہ رمضان کے روزے بھی رکھتا ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس حالت میں مرجائے وہ انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا بشرطیکہ اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہ کرے۔ ذالک الفضل من اللہ۔ یہ فضل اللہ کی طرف سے ہے۔ یعنی جنت میں ان مقدس نفوس کی معیت و رفاقت محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ باوجودیکہ عام اہل ایمان ان مقدس ہستیوں کے اعمال و اخلاص میں کسی صورت میں برابر نہیں ہوسکتے، پھر بھی جنت میں ان کی رفاقت و معیت خواہ کسی صورت میں ہو یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل و کرم ہے جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بلاشبہ بہت سے ایسے انعامات الٰہی ہیں جن کے اسباب سے کراماً کاتبین بھی بے خبر ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ ان کے اسباب کو جانتا اور اسکا عمدہ بدل عنایت فرمادیتا ہے۔ اللّٰہم انا نسئالک من فضلک وکرمک ولطفک لااحصیٰ ثناء علیک انت کما اثنیت علیٰ نفسک
۔اللّٰہم انا نسئالک مرافقۃالذین انعمت علیہم غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین۔وصلی
اﷲتعالیٰ علیٰ حبیبہٖ خیر خلقہٖ سیدنا محمد واٰواصحابہٖ وسلم۔ |