فہرست الطاہر
شمارہ 48، ذیقعد 1428ھ بمطابق دسمبر 2007ع

خواجہ خواجگان حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ

دینی فکر و کوشش کی چند یادیں

خلیفۂ محترم جناب محمد حسن اوٹھو بخشی طاہری نقشبندی

 

سندھ کے اس عظیم المرتبت، صاحب الفیض و الفضیلت، رہبر شریعت، پیر طریقت، سیدی ومرشدی حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت و بیعت کی سعادت سال 1968ء میں اس عاجز کو درگاہ فقیر پور شریف پر حاصل ہوئی۔ آپ کی شخصیت جامع صفات ولایت تھی۔ اتحاد و اصلاح المسلمین کی خوبی آپ میں اتم درجہ کی تھی۔ آپ کی ذات ”واعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا“ اور ”ان ارید الاصلاح“ کی گویا تفسیر تھی۔ اپنے مریدین کے علاوہ تمام مسلمانوں کی بھی اصلاح کا فکر رکھتے تھے۔

اہل ذکر حضرات کو تبلیغ دین کا ڈھنگ سیکھنے اور اپنی تعلیمی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی بہت تاکید فرماتے تھے۔ ابتدا میں اس عاجز کو دینی رسالے مطالعہ کے لیے دیتے تھے اور خاص مضامین کا انتخاب فرماکر اس عاجز کو وہ مضامین اپنے پاس تحریر کرکے رکھنے کی تاکید فرماتے تھے جو خصوصاً دہریت کے خلاف اور صوفیائے کرام کی دینی خدمات اور انقلابی کارناموں پر مشتمل ہوتے تھے۔

اصلاح المسلمین کی خاطر آپ نے دربار عالیہ پر تعلیم بالغان کا سلسلہ جاری کیا۔ خصوصاً اسکولوں اور کالجوں کی تعطیلات کے دنوں میں ایک ماہ یا پندرہ دن کے تربیتی پروگرام ہوتے تھے جن میں مدرسہ کے اساتذہ کرام قرأت، عربی، فارسی اور ضروری مسائل سکھانے کی خدمات انجام دیتے تھے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ کی اس کوشش اور نظر کرم کے نتیجے میں کافی مبلغ پیدا ہوئے۔
حضرت سوہنا سائیں کو اس روحانی، اصلاحی پیغام کو بیرونی ممالک پہنچانے کا فکر دامن گیر تھا۔ انگریزی خواندہ حضرات کو انگریزی، عربی، فارسی اور دوسری زبانوں کو سیکھنے اور ان زبانوں میں تقریر کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔ آپ کی کوشش سے درگاہ فقیر پور شریف پر اس عاجز نے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر انگریزی میں تقریر کی، حالانکہ اس سے پہلے مادری زبان میں بھی تقریر کرنے کی صلاحیت نہ تھی۔ سچ ہے کہ

نگاہ ولی میں یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

ایک دین سے بے بہرہ انگریزی خواندہ انسان کو ایک مبلغ دین بنانا، یہ حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کا کمال تھا۔ آپ کی خدمت اقدس میں آنے سے پہلے مختلف مکاتب فکر کے علماء اور چوٹی کے مقرروں کی تقاریر بڑے ذوق و شوق سے سنی تھیں۔ ایک مولانا صاحب جو تقریبا 12 زبانوں میں تقریر کے ماہر تھے، ہمارے گاؤں میں تین بار بڑے بڑے جلسوں میں خطاب فرماکر گئے مگر گاؤں کا ایک فرد بھی نمازی نہ بن سکا اور نہ ہی مسجد قائم ہوسکی۔ مگر الحمدللہ جب حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کا اصلاح روحانی پیغام لیکر آپ کے خلیفہ حضرت قبلہ سید نصیر الدین شاہ صاحب ہمارے گاؤں میں تشریف لائے، آپ کا پیغام سنایا، قلبی ذکر کی تلقین فرماکر دوسرے دن واپس آگئے تو اسی دن گاؤں والوں نے ایک بڑے درخت کے نیچے جائے نماز بنائی اور نماز باجماعت پڑھنے کا اہتمام کیا اور حضرت سوہنا سائیں کی خدمت و صحبت میں آنے جانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ آج بفضلہ تعالیٰ اسی گاؤں میں پنج گانہ نماز باجماعت جمعہ اور نماز عیدین کا اہتمام ہوتا ہے۔ روزانہ بعد نماز فجر ذکر اللہ کا حلقہ مراقبہ ہوتا ہے۔ گاؤں میں تہجد گذار اور شرعی پردہ کا اہتمام کرنے والے افراد موجود ہیں۔ یہ حضرت سوہنا سائیں کے فیوض و برکات، اصلاحی فکر اور کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ایسے سینکڑوں گاؤں اور ہزاروں مسلمانوں کی اصلاح کی مثال موجود ہے۔ سچ ہے کہ

نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتاہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

حضرت قبلہ سوہنا سائیں کی جس پر بھی ایک بار پرفیض نورانی نظر پڑی وہ نیکوکار، نمازی، تہجد گذار اور باشرع نظر آنے لگتا ہے۔

اس عاجز کو اچھی طرح یاد ہے کہ میرا بڑا بھائی محمد حسین مرحوم جو بھینسوں کا چرواہا تھا، اسے نماز پڑھنے کے لیے کہتے تو وہ غصے میں کہتا تھا کہ بھینسوں کو چروانے کا کام بھی کرو اور پھر نماز پڑھو تو دیکھوں گا۔ کوشش کرکے یہ عاجز اسے ایک بار دربار فقیر پورشریف گیارہویں شریف کے پروگرام میں ساتھ لے گیا۔ رات وہاں رہا۔ حضرت سوہنا سائیں سے بیعت کی، ذکر قلبی کی اجازت حاصل کی۔ اسی دن سے نہ ڈاڑھی منڈوائی نہ نماز قضا کی بلکہ نماز تہجد، اوابین اور اشراق کے نوافل بھی پابندی سے ادا کرتا تھا۔ اور اس کے ذمہ جو دنیا کا کام تھا وہ بھی بہتر انداز میں کرتا تھا۔ حضرت سوہنا سائیں کی ایک ہی صحبت بابرکت کا بھائی پر اتنا اثر ہوا کہ اس عاجز کی دعوت پر اپنے اکلوتے بیٹے محمد عیسیٰ کو دربار کے مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اجازت دی۔ محمد عیسیٰ کچھ عرصہ فقیر پورشریف رہا، بعد میں کچھ عرصہ مولانا حاجی حبیب اللہ کے مدرسے میں پڑھے اور آخر مولانا الحاج محمد ادریس ڈاہری کے مدرسہ سے فارغ ہوئے۔ آج کل ایک مڈل اسکول میں عربی ٹیچر ہیں۔

حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ ہر فرد کی اصلاح کا فکر رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ درگاہ فقیر پور شریف میں تربیتی دورہ میں قرأت پڑھانے کے لیے استاد محترم قاری خان محمد نے اپنا ایک شاگرد قاری محمد علی بروہی بھیجا۔ قاری محمد علی صاحب صوفیاء کرام کے خلاف عقائد رکھتا تھا۔ فقراء کے طرز عمل، محبت پیر وغیرہ کی باتوں پر معترض ہوتا تھا۔ اہل ذکر حضرات اور علماء کرام قاری صاحب پر ناراض ہوتے تھے۔ حضرت سوہنا سائیں فقراء اور علماء کو سختی سے ان کے رویہ پر تنقید کرنے سے منع کرتے تھے۔ قاری صاحب کا دل دکھانا گوارہ نہ کرتے تھے۔ اس عاجز کو یاد ہے کہ کسی دوست نے حضرت سوہنا سائیں سے اس عاجز کے متعلق شکایت کی کہ یہ محمد علی صاحب سے جھگڑ رہا تھا۔ حضرت سوہنا سائیں نے اس عاجز کو بلایا اور فرمایا کہ یہاں پر اس ایک آدمی کو نہیں سنبھال سکتے تو سعودی عرب جاکر تبلیغ کا کام کس طرح سے کرو گے۔

معلوم ہوا کہ جماعت اصلاح المسلمین کا آٹھ رکنی وفد سعودی عرب براستہ ایران و عراق تبلیغ کی غرض سے حضرت روانہ فرما رہے تھے۔ ان میں عاجز کو اور مولانا حاجی احمد حسن لاشاری کو سعودی عرب میں تبلیغ کے لیے قیام کرنے کی اجازت فرمائی تھی۔ جب اس عاجز نے قاری صاحب کے ساتھ گفتگو کی وضاحت پیش کی آپ بڑے خوش ہوئے۔ الحمدللہ حضرت سوہنا سائیں کی شفقت و محبت کی وجہ سے قاری محمد علی صاحب کے دل میں حضرت صاحب سے بڑی عقیدت پیدا ہوگئی۔

حضرت سوہنا سائیں تبلیغ دین اور طریقہ عالیہ کی اشاعت کا کام حکمت عملی کے ساتھ کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ بعد نماز فجر و مراقبہ اس عاجز کو تقریر کرنے کا حکم فرمایا۔ دوران تقریر اس عاجز نے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ایک شعر پڑھنے کا ارادہ کیا۔ ابھی شعر کے الفاظ اس عاجز نے ادا ہی کیے تھے کہ آپ نے کشف سے معلوم کرتے ہوئے اس عاجز کی طرف ایسی توجہ فرمائی کہ یہ عاجز اس شعر کو چھوڑ کر تقریر کرتا رہا۔ محفل کے اختتام کے بعد حضرت سوہنا سائیں نے اس عاجز کو علیحدہ بلاکر فرمایا کہ واقعتا یہ شعر شاہ صاحب کا ہے، مگر نئے آدمی کا خیال رکھا جائے کہ اس کے اعتقاد کو ٹھوکر نہ لگے۔ ہمیشہ حضرت صاحب کی یہ منشا ہوتی تھی کہ بقول ڈاکٹر اقبال کے:

وصل کے اسباب پیدا ہوں تیری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تیری تقریر سے

ویسے تو مجلس میں اس عاجز کے اندازہ کے مطابق پرانے احباب تھے، مگر جب معلومات کی تو پتہ لگا کہ غیر مقلدین عقائد کا آدمی رادھن اسٹیشن کے ایک فقیر کے ساتھ آیا تھا اور شریک محفل تھا۔

حضرت سوہنا سائیں کو ایک ایک فرد کی اصلاح اور تربیت کا فکر ہوتا تھا۔ اختلافی عقائد اور مسائل بیان کرنے سے مبلغین کو منع فرماتے تھے۔

حضرت سوہنا سائیں ہر فرد مرد خواہ عورت، چھوٹے بڑے کی اصلاح اور تربیت کی تاکید فرماتے تھے۔ ایک بار حضرت صاحب دربار پیر مٹھا پر ظفروال چک 562 میں کثیر جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ بعد نماز فجر مراقبہ جب محفل ختم ہوئی، دعا کے بعد آپ قیام گاہ کی طرف روانہ ہوئے تو مسجد میں ایک چھوٹے بچے پر آپ کی نظر پڑی جس کی عمر تقریباً چار سال تھی۔ اس نے فقط ایک نیکر گھٹنوں سے اوپر پہنی ہوئی تھی۔ اسے بازو سے پکڑ کر پوچھا ”یہ بچہ فقیروں کا ہے؟“ دوستوں نے بتایا جی ہاں۔ حضرت صاحب نے خلیفہ مولانا حبیب اللہ صاحب کو بلایا اور تنبیہا فرمایا کہ ”فقیروں کو یہ بھی نہیں سکھایا ہے، چھوٹے بچوں کی بھی ستر ڈھانپنے کا حکم ہے۔“

ایک مرتبہ درگاہ اللہ آباد شریف پر ایک پرانہ دوست جو سعودی عرب میں رہتا تھا، آیا۔ جب حضرت صاحب کی اس پر نظر پڑی تو دیکھا کہ سفید رومال کے اوپر سیاہ رنگ کی ایک موٹی ریشمی سی لپیٹی ہوئی تھی۔ تقریر کے دوران آپ نے نام لے کر فرمایا کہ ”حاجی صاحب سے پوچھو کہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کی سنت دستار مبارک حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کو واپس دے آئے ہیں کیا؟ جلسہ ختم ہونے کے بعد آپ نے فرمایا حاجی صاحب سے اس بات کا فیصلہ کیا جائے دستار باندھنا کیوں چھوڑدی ہے۔

حضرت سوہنا سائیں سوال کرنے سے خود بھی اجتناب کرتے تھے اور اپنے مریدین اہل ذکر حضرات کو بھی منع فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت صاحب تبلیغ کے سلسلے میں قاری غلام حسین صاحب کے پرانے گاؤں عباس کوندھر میں تشریف فرما تھے۔ یہ ناچیز اور مولانا محمد عظیم مہیسر خدمت میں تھے۔ معمول کے مطابق یہ عاجز بادام کی تھادل تیار کرنے کے لیے کمرہ کی طرف آیا۔ صفائی وغیرہ کی۔ قاری غلام حسین کوندھر صاحب نے عاجز کو کہا کہ تھادل کا سامان جلدی سے لے آتا ہوں۔ غالباً قاری صاحب وہ سامان ہالانی وغیرہ سے لانے کے لیے گئے تھے۔ کچھ دیر ہوگئی، حضرت سوہنا سائیں محفل برخاست ہونے کے بعد کمرہ میں تشریف لائے۔ تھادل کے متعلق دریافت کرنے پر اس عاجز نے عرض کیا کہ قاری غلام حسین صاحب اب تک واپس نہیں آئے ہیں۔ آپ نے ناراضگی سے فرمایا کہ آپ نے قاری صاحب کو تھادل کے سامان کے لیے سوال کیوں کیا؟ سامان ہمارے ساتھ ہے۔ ایک کھجی کی ٹوکری سفر کے دوران آپ کے ہمراہ تھی اس عاجز کو ٹوکری قریب لانے کا حکم فرمایا۔ ٹوکری کو خود کھولا۔ اس عاجز نے دیکھا کہ تھادل کا مکمل سامان آپ کے ساتھ تھا۔ اتنے میں مولوی محمد عظیم صاحب نے آگے بڑھ کر عرض کیا حضور گھوٹنے کے لیے ڈنڈا کونڈا مل گیا ہے اور جلدی سے تیار کرتے ہیں۔ حالانکہ قاری غلام حسین صاحب جماعت کے پرانے رکن اور حضرت سوہنا سائیں کے ساتھ تعلق اور محبت میں بہت پکے تھے۔ جب درگاہ اللہ آباد شریف مرکز بنا تو قاری غلام حسین صاحب نے اپنے گاؤں سے ہجرت کرکے حضرت صاحب کے ساتھ رہائش اختیار کی۔ آگے چل کر قاری صاحب حضرت صاحب کے داماد بنے اور اب تک دربار پر مقیم ہیں۔ آپ کی استغنائی کا اس سے اندازہ کیا جائے کہ ایسے قریبی تعلق مرید سے (جو آپ داماد بنا) سوال کرنے کو پسند نہیں فرمایا۔

حضرت سوہنا سائیں نعمت خداوندی کا صحیح استعمال کرتے تھے اور ناقدری نہیں کرتے تھے۔ قاری غلام حسین صاحب کے گاؤں کا ہی واقعہ ہے کہ یہ عاجز حضرت صاحب کے غسل کی خاطر بالٹی بھرکر لایا، تانبے کے بڑے برتن میں پانی لیا، تختہ کو دھویا۔ برتن میں پانی باقی تھا۔ اس عاجز کا ارادہ تھا کہ اسے گرادوں۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ پانی گرانا نہیں، ہمیں دے دو۔ آپ نے برتن اس عاجز سے لیا، وہ پانی اپنے خشک پاؤں پر استعمال کیا، ضائع نہیں کرنے دیا۔ دوسرے دن حضرت محراب پور تشریف لائے۔ حاجی محمد یوسف چنہ مرحوم کے ہاں آپ کا قیام تھا۔ یہ عاجز خدمت میں تھا۔ جب قیلولہ سے بیدار ہوئے اس عاجز نے آپ کے پینے کے لیے پانی گلاس میں نکالا۔ پانی زیادہ بھر گیا۔ ارادہ کیا کہ پانی نیچے گرا کر کم کردوں، اتنے میں حضرت صاحب نے فرمایا پانی نہیں گرانا، پہلے ہی کم لینا چاہیے تھا۔ آپ نے گلاس لیا اور پورا گلاس سنت طریقے سے استعمال فرمایا، ضائع ہونے نہیں دیا۔

حضرت سوہنا سائیں اپنے مریدین کا خیال رکھتے تھے، خصوصا تبلیغی سفر کے ساتھیوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے۔ ہر حال میں دوستوں کی خوشی اور دکھ میں شریک رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ پنجاب کا تبلیغی سفر تھا کافی لمبی مسافت تھی۔ اہل ذکر حضرت کے ساتھ بس میں سوار تھے۔ بس معمول کے مطابق کھڑی ہوتی پھر چلتے آرہی تھی۔ جب فیصل آباد سے گذر رہے تھے تو بس کا ٹائر برسٹ ہوگیا۔ اس کو بنانے کے لیے کافی وقت درکار تھا۔ حضرت قبلہ سید جیئل شاہ صاحب جیلانی نے حضرت صاحب سے اجازت طلب کی کہ حضور اجازت ہو آپ کے لیے علیحدہ کار لے کر آئیں، اس میں آرام اور جلدی میں سفر ہوجائے گا۔ حضرت صاحب نے فرمایا ہم دوستوں کے ساتھ صحیح ہیں، تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ پنجاب کا تبلیغی دورہ تھا۔ جماعت کافی دور کا سفر کرکے حکیم عبدالستار صاحب کی دعوت پر ڈجکوٹ حضرت صاحب کے ساتھ پہنچی۔ دوستوں نے لنگر بھی نہیں کھایا تھا۔ لنگر پکنے میں دیر تھی۔ میزبان حضرت صاحب کے لیے خربوزہ وغیرہ کاٹ کر لے آئے کہ آپ تناول فرمائیں۔ آپ نے جماعت کے لنگر کے متعلق معلوم کیا، جب تک لنگر تیار نہ ہوا حضرت صاحب نے فروٹ تناول نہیں فرمایا۔

حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ مستورات کی اصلاح کے لیے بھی ماہوار اور سالانہ پروگراموں میں دربار پر حاضری کی کوشش فرماتے تھے۔ خلفاء حضرات کو خصوصی تاکید فرماتے تھے کہ جماعت میں پردہ کے اہتمام کے ساتھ مستورارت میں بھی یہ پیغام پہنچایا جائے۔ الحمدللہ آپ کی کوشش کا نتیجہ ہے کہ آج بھی دربار پر مستورات کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ پردہ کے ساتھ ان کے لیے جلسہ گاہ اور حضرت قبلہ عالم سیدی و مرشدی سجن سائیں مدظلہ العالی کے خصوصی خطاب کا اہتمام ہوتا ہے۔ کئی جگہوں پر اہل ذکر حضرات کے حلقوں میں مستورات کے خصوصی پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔

حضرت سوہنا سائیں کے تبلیغی علاقہ دین پور کا واقعہ سائیں نصیر الدین شاہ صاحب بیان فرماتے تھے۔ دین پور کچے کے علاقہ میں واقع ہے۔ پانی کے لیے مرد و خواتین کو گاؤں سے متصل کنوئیں پر جانا پڑتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک عورت اپنے چھوٹے بچے کو ساتھ لے کر پانی کے لیے کنوئیں کی طرف روانہ ہوئی۔ عورت برقعہ میں تھی، جب اس کی اچانک نظر کنوئیں پر کھڑے ہوئے ایک مرد پر پڑی تو وہ دور کھڑی رہی۔ وہ آدمی جب واپس ہوا عورت کے بچے کو پہچان کر کہنے لگا کہ بہن میں تیرا بھائی ہوں، آپ کیوں دور کھڑی ہوگئیں؟ اس عورت نے جواب دیا کی بھائی پہلی نظر بعد میں نے دوبارہ نگاہ اٹھاکر نہیں دیکھا کہ کون کھڑا ہے۔ یہ تھا سوہنا سائیں کی اصلاحی روحانی تعلیمات اور فیوضات کا اثر۔

حضرت سوہنا سائیں کو اسکولوں کالجوں کے طلباء کی اصلاح کا بھی بہت فکر تھا۔ آپ کی کوشش کے نتیجے میں روحانی طلباء جماعت پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ آپ طلباء کو اساتذہ، والدین اور بڑوں کا ادب کرنے، اپنی تعلیم پر صحیح توجہ دینے کی تاکید فرماتے تھے۔ اس عاجز نے 1966ء میں بی۔اے کا امتحان پاس کیا تھا، اس کے بعد 1979ء میں حضرت سوہنا سائیں کے فرمان کے مطابق ایم۔اے اسلامک کلچر کا امتحان پاس کیا۔

حضرت سوہنا سائیں کے دینی فکر اور اصلاحی کوششوں کے سیکڑوں واقعات ہیں۔ یہ تو الطاہر رسالے کی گنجائش کو مدنظر رکھتے ہوئے اس عاجز نے مشت از خروارے ک طور پر تحریر کی ہیں۔

حضرت سوہنا سائیں اپنی زندگی میں تو مسلمانوں کی اصلاح کا فکر رکھتے تھے بلکہ مستقبل میں اس مشن کے جاری و ساری رہنے کا فکر آپ کو دامن گیر رہتا تھا۔ اس کام کو سرانجام دینے کے لیے اور آپ کے مریدین کی اصلاح کی خاطر اپنے لخت جگر، عالم بے بدل حضرت علامہ مولانا محمد طاہر صاحب نقشبندی بخشی المعروف سجن سائیں مدظلہ العالی کی تعلیم و تربیت بچپن سے کی۔ آپ فرماتے تھے کہ سندھ اور پنجاب میں رواج ہے کہ لوگ پیر کے فرزند میں زیادہ اعتقاد رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ حضرت صاحب سجن سائیں مدظلہ العالی کو وہ نعمت اور صلاحیت عطا فرمادے جو جماعت کو منظم و متحد رکھ سکیں۔ الحمدللہ آپ کی دعاؤں کا صدقہ ہے اور حضرت قبلہ سجن سائیں مدظلہ العالی کی ان تھک محنت ہے کہ تبلیغ دین کا کام دن دوگنا رات چوگنا ہورہا ہے۔ اور ہر سطح پر اہل ذکر حضرات اتفاق و اتحاد اور منظم طریقے سے دین کا کام کر رہے ہیں۔

حضرت سوہنا سائیں مدرسہ کے طلباء کو بھی ذکر و مراقبہ، اصلاح باطن کی تاکید فرماتے تھے۔ آپ کے فرمان سے اس عاجز نے مرکز اسلامی کراچی میں داخلا لیا تھا۔ فقیر محمد اسحاق سانگھڑ سے، مولانا غلام محمد شر بلوچ ضلع خیرپور سے اور مولانا انوار المصطفیٰ صاحب نواب شاہ سے بھی وہاں داخل تھے۔ حضرت کھنڈو گوٹھ کراچی تشریف لائے۔ اس عاجز سے فرمایا کہ تقریر کرنے والے علماء بہت ہیں، ہم زندہ دل علماء کرام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کے فرمان کے مطابق روزانہ کمرہ پر ذکر و مراقبہ تسبیح لیا کرتے تھے۔

حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ واعظ اور مبلغین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے تھے کہ آپ کا انداز بیان ایسا ہو کہ سویا ہوا جاگ پڑے، جاگتا ہوا اٹھ کھڑا ہوجائے اور کھڑا ہوا بھاگنا شروع کردے۔ یہ تھا آپ کا دین کے کام کرنے کا فکر۔ الحمدللہ آپ کے وعظ و نصیحت سے ہزاروں خفتہ لوگ بیدار ہوئے۔ آپ کا طرز کلام ہزاروں کو آپ کا گرویدہ بنادیتا تھا۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے سچ کہا کہ

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے

حضرت سوہنا سائیں کو تبلیغ کے خطوط اور احوال سن کر بڑی خوشی ہوتی تھی۔ تفصیل سے تبلیغی احوال کو پسند فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ جماعت اصلاح المسلمین کا 8 رکنی وفد (جسے حضرت صاحب نے سعودی عرب تبلیغ کے لیے تشکیل دیا تھا) کو ہدایتیں دیتے ہوئے فرمایا کہ تبلیغ کا احوال تفصیل سے بھیجتے رہنا۔ ادب کا لحاظ کرتے ہوئے خطوط مختصر نہ کرنا۔ اگر آپ لوگ تبلیغی احوال سے رجسٹر بھر بھیجیں گے تو انہیں شوق سے پڑھا جائے گا۔ آپکا معمول ہوتا تھا کہ مبلغین کے خطوط سننے کے بعد دعائیں دیتے تھے۔ ایک مرتبہ محفل میں ایک سیاسی لیڈر کا انتہائی جذباتی بیان پڑھوایا۔ اس کے بعد جماعت اہل ذکر علماء، طلباء سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اس سیاستدان نے نہ کسی مدرسہ سے تعلیم حاصل کی، نہ صالحین کی صحبت میں رہا، بلکہ اس نے زیادہ عرصہ مغربی ممالک میں گذارا۔ آپ لوگوں کو اللہ والوں کی صحبت اور علم دین نصیب ہوا ہے۔ آپ کے اندر تو زیادہ دینی جذبہ اور کلام کرنے کو ہمت ہونی چاہیے۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ کہ ہم گنہگاروں کو ایسے کامل ولی کی صحبت اور قیادت نصیب ہوئی جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں مل سکتی۔

بڑی مدت سے بھیجتا ہے ساقی ایسا مستانہ
بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستور مئے خانہ