فہرست الطاہر
شمارہ 51، جمادی الاول 1429ھ بمطابق جون 2008ع

حضرت رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ

فقیر غلام مرتضیٰ عباسی

 

اللہ تعالیٰ کے محبوب مرسل حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کو ماں ہونے کا بلند مرتبہ عطا ہوا تو سچ مچ ماؤں کی عظمت اور وقار بلندیوں کو چھونے لگیں کہ مامتاکا پاکیزہ رشتہ جیسے عروج وکمالات سے مالا مال ہوا۔

حدیث شریف میں ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے تو اس والدہ ماجدہ کی شان کو بھلا کون پہنچ سکتا ہے۔

جہالت کے دور میں عرب میں عورت کو خاص رتبہ حاصل نہ تھا لیکن بالکل ایسا بھی نہ تھا کیونکہ حاتم طائی کو سخاوت ماں سے ورثہ میں ملی تھی۔ انصار کے قبیلے اوس اور جزرج اپنی والدہ بنو باہلہ بنت صعب سے منسوب ہیں۔

پرانے زمانے میں عرب اپنا نسب بیان کرنے کے دلدادہ تھے یہ ایک فن تسلیم تھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس فن میں ماہر تھے۔ تو نسب بیان کرنے میں اجداد کے ساتھ جدات (دادیاں ) کو نہیں بھلایا گیا۔

ام النبی صلّی اللہ علیہ وسلم سیدہ آمنہ بنت وہب کی سیرت کے لیے ان کے لخت جگر کی شخصیت کے لیے ایک اہم چشمہ تھا۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ والدہ ماجدہ نے نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم پر خاندانی خصلتوں کا پاکیزہ تاثر چھوڑ کر ایسی عالیشان نسب پر فخر کرنے کا موقع فراہم کیا، جب حضور کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’میں بنی سلیم کی کریم خواتین کا فرزند ہوں ‘‘ لاریب یہ الفاظ پاکیزہ جذبات کے مظہر ہیں۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے اپنے معصوم فرزند کے لیے پانی کی ضرورت کے لیے بیتابی ظاہر کی تو آب زمزم عطا ہوا اور مزید اسلامی دنیا کے لیے حج کے دوران سعی کرنا واجب ٹھہرا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کی والدہ ماجدہ کو دونوں جہانوں کے لیے نشانی بنایا گیا تو انبیاء علیہم السلام کی ماؤں میں آخری کڑی حضرت آمنہ بنت وہب کو ہمارے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی والدہ ماجدہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

بیشک کعبۃ اللہ شریف اول گھر انسانوں کے لیے مبارک کرکے اور جہانوں کی ہدایت کے لیے مکہ میں بنایا گیا۔ گھر تو وہی مکہ سیدہ آمنہ ان کے فرزند ارجمند اور ان کے آباء واجداد کا قرارگاہ رہا اور حضور کریم کی بعثت اور قیامت تک ہم مسلمانوں کا قبلہ بھی ہے۔

حضرت آمنہ کے والد وہب بن عبدمناف شرافت اور فطری قابلیت کے بناء پر بنو زہرہ کے سردار تھے۔ خاندان زہرہ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی کے نام سے موسوم تھا۔ سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنی والدہ کی جہت سے نسب بھی بڑا عزت والا تھا آپ کی والدہ برہ بن عبدالعزیٰ بھی کعب بن لؤی بن غالب سے تھی۔

تو یہ تھی عظمت اور رفعت والدین کی طرف سے تو اس سبب سے حضور کریم نبی صلّی اللہ علیہ وسلم اپنے نسب کی بات کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے مجھے پاک پشتوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل فرماتا رہا۔ ہر آلائش سے پاک کرکے ہر آلودگی سے صاف کرکے جہاں کہیں دو شاخیں پھوٹیں وہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس شاخ میں منتقل کیا جو سب سے بہتر تھی۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میں حسب ونسب سے اور سسرال کے اعتبار سے تم میں سب سے زیادہ نفیس اور کریم ہوں۔ ‘‘

ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ شادی کے روز قریش عورتوں میں حسب نسب کے اعتبار سے سب سے افضل حضرت آمنہ تھیں۔

آپ کا بچپن بڑا پاکیزہ تھا آپ گلستان قریش کی کلی اور بنو زہرہ کی بیٹی تھیں۔ آپ ہمہ وقت پردہ میں رہتی تھیں آپ کی پاکیزہ سیرت کی بات پورے مکہ میں معلوم تھیں بہت سے نوجوان جو عام عورتوں کی طرف التفات نہ کرتے تھے آپ کے یہاں منگنی کا پیغام بھیجتے۔

حضرت آمنہ کے قریبی تعلق کے وجہ سے حضرت عبد اللہ بن عبدالمطلب کے سے کچھ جان پہچان تھی بھلا کبھی تو دونوں آپس میں کم شناسائی کے باوجود مجالس میں دیکھتے ہوں گے۔ چونکہ حضرت عبد اللہ ایک سؤ اونٹ نذر کے معاملے میں ملوث تھے جو ان کے والد حضرت عبدالمطلب نے زم زم کی کھدائی کے وقت منت مانی تھی تو اس وجہ سے بی بی آمنہ کہ یہاں پیغام بھیجنے سے قاصر تھے۔ پھر حضرت عبد اللہ کے شادی کا پیغام بی بی آمنہ کے والد کے یہاں پہنچا اور خوشی سے قبول کیا گیا۔ اور سب عورتیں جو حضرت عبد اللہ پر مر مٹی تھیں تو کہا کہ واہ بی بی آمنہ تیرے نصیب!

سمجھنا چاہیے کہ یہ باتیں فقط عقیدت کی نہیں، جدید سیرت نگار محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ یہی بات کافی ہے کہ حضرت عبد اللہ بھی بے حد حسین تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی شخصیت سحر انگیز تھی۔ شادی سے تین دن بعد حضرت آمنہ دولہا کے گھر پہنچی تو ان کو اپنے گھر کی یاد تو آتی ہوگی لیکن حضرت عبد اللہ نے استقبال کیا تو سب باتیں بھول گئیں۔

پھر خواب میں ہاتف غیبی کی آواز سنی کہ آمنہ تو حاملہ ہوئی ہے اور تمہارے بطن مبارک سے امت کے سردار تشریف فرما ہوں گے۔ پھر سارے عرب میں اس نبی سردار کی آمد کے اطلاعات ہونے لگے کبھی خواب بھی دیکھے جارہے ہیں لیکن حضرت عبد اللہ تو قریش کے قافلہ کے ساتھ شام گئے اور پھر واپس نہ آئے لیکن بی بی آمنہ کا فراق کدھر جائے اور آنے والے کا انتظار بھی تو کرنا تھا بی بی آمنہ کو کبھی حمل سے تکلیف نہ ہوئی حتیٰ کہ سردار نبی صلّی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے۔ اسی دوران حضرت عبد اللہ کی وفات کی خبر آئی۔ اعتبار بھلا کیسے آتا لیکن بی بی صاحبہ نے آخر ابیات پڑھے کہ بطحاء وادی کے کنارے نے ہاشم کے بیٹے کو ابدی نیند سلادیا۔ غیرہم۔ اس اچانک رحلت سے بھلا حضرت آمنہ کے جذبات کا کوئی احاطہ کرسکتا تھا بھلا اٹھارہ سال کی دلہن اور یوں بے بس ابھی تو ہاتھوں کی مہندی کا رنگ باقی ہوگا۔ تو کہنے والے کہتے ہیں کہ نذر جو عبدالمطلب نے مانی تھی وہ ایک سؤ اونٹ کی سے بھاری تھی بس مہلت مل گئی تھی وہ بھی اتنی تھوڑی سی۔

تو ہمارے آقا دونوں جہاں کے مالک کے لاڈلے اور بی بی آمنہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تشریف لائے تو مکہ کے گلی کوچہ میں بشارتیں سنی جارہی تھیں۔ بی بی آمنہ کا خاوند کا ملال مٹنے والا تو نہ تھا مگراس مبارک ولادت سے اور کس کو زیادہ خوشی ہوسکتی تھی! جلدی یمن کے حکمران ابرہ کعبۃ اللہ پر حملہ کرنے کے لیے پہنچا لیکن ابابیلوں نے اپنا کام کردکھایا واہ اللہ تعالیٰ کی خسیس مخلوق اور کیا ہاتھیوں کا لشکر جوریزہ ریزہ ہوا۔

حضرت عبدالمطلب نے پوتے کا نام محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام رکھا تو ان کی بھی کیا بصیرت تھی کہ رہتی دنیا تک وہ محمود ہوگئے اور دادا نے ایسی بات بھی تو کی تھی۔ ہرسال ربیع الاول کی بارہ تاریخ پوری مسلم دنیا اس ولادت کا جشن مناتی ہے اور مناتی رہے گی۔ بھلا کسی کو تکلیف کیوں ہو اور ہم تو صحابوں کا نعرہ یامحمداہ لگائیں تو کچھ حرج نہیں جشن تو پورا مہینہ رہتا ہے بھلا ایسا پاکیزہ بچہ کس نے دیکھا تھا اور اس کی رضاعت یعنی دودوھ پلانے کی خدمت تو بی بی حلیمہ کے نصیب میں آئی۔ بی بی آمنہ تو پھر اکیلی ہوئیں جب تک ان کی واپسی ہوئی۔ اور واپسی ہوئی تو ماں نہال ہوگئی۔ دونوں ماں بیٹے مدینہ کے کوچ کی تیاری میں لگے جہاں حضرت عبد اللہ کی کشش ان کو پکار رہی تھی۔ گرمی کا موسم تھا اور پتھریلی صحرا، تو اپنے میاں کی آرام گاہ کے طرف چلنا آسان تو نہ ہوگا لیکن جن کو جانا تھا وہ قافلہ کے ساتھ معصوم فرزند اور کنیزہ ام ایمن کو لیکر چل پڑیں۔ شوہر نامدار کی یادیں سانس کی دھڑکنیں تیز کرتی رہیں معًا وہ عالم تصور میں حضرت عبد اللہ سے ملاقات تعمیر مشغول ہوجائیں۔ آخر سفر ختم ہوا تو اس نے پیارے ہونہار کو والد ماجد کے متعلق باتیں بتائیں ہوں گی۔ قبر شریف پر روزانہ حاضری ہوتی رہی۔ ایک مہینے بعد واپسی ہونے لگی تو شوہر سے جیسے نئی طرح جدائی ہورہی تھی اور جذبات بھلا قابومیں آسکتے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد مکہ اور یثرب کے درمیان تیز آندھی چلی اور سب کے حوصلے پست ہوئے۔ اب بی بی آمنہ کی صحت کی خرابی عیاں تھی کہ حضرت محمد کوبھی نظر آتی ہوگی تو بی بی آمنہ نے اپنے لعل کو سینے سے لگایا اور ڈھیر ساری دعائیں دی ہوں گی۔ اور دھیمی سی آواز میں اپنے کو اور لاڈلے بیٹے کو تسلی دی ہوگی کہ اس کا جگر کا ٹکڑا باقی دنیا تک روشنی کی شمع مثل ہوگا۔ جس پر پروانوں کی کمی نہ ہوگی کائنات پر سکوت طاری ہوا اور ہمارے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جذبات کا کوئی بھی احاطہ کر نہیں پائے گا کیونکہ پاک لوگوں کے احوال کبھی سمجھے نہیں جاتے بس ہور کوئی اپنے اوپر ان کو تصور نہ کرے۔