
فہرست | الطاہر شمارہ 52، رمضان المبارک 1429ھ بمطابق ستمبر 2008ع |
شب قدرابوالعارف مفتی محمد کامل سہارن
شب قدر کے معنی: قدر کے معنیٰ عظمت و شرف کے ہیں اور اس شب کو شب قدر کہنے کی وجہ اس رات کی عظمت و شرافت ہے۔ حضرت ابوبکر وراق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’اس رات کو شب قدر اس لیے کہا گیا ہے کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بے عملی کے سبب کوئی قدر و قیمت نہ تھی اس رات میں توبہ و استغفار اور عبادت کے ذریعے وہ بھی صاحب قدر و شرف بن جاتا ہے‘‘ (تحفہ رمضان) قدر کے دوسرے معنی تقدیر و حکم کے بھی آتے ہیں۔ اس معنی کے اعتبار سے شب قدر کہنے کی وجہ یہ ہوگی کہ اس رات میں تمام مخلوقات کے لیے جو کچھ تقدیر ازل میں لکھا ہے اس کا جو حصہ اس سال ماہ رمضان سے اگلے سال ماہ رمضان تک پیش آنے والا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالے کیا جاتا ہے جو کائنات کی تدابیر اور تنفیذ امور کے لیے مأمور ہیں۔ (تفسیر مظہری) شب قدر اور قرآن مجید: ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بے شک ہم نے اس (قرآن مجید) کو اتارا ہے شب قدر میں، اور آپ کچھ جانتے ہیں کہ شب قدر کیا ہے، شب قدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے، اترتے ہیں فرشتے اور روح (القدس) اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر امر (خیر) کے لیے، یہ سراسر امن و شبِّ سلامتی ہے۔ یہ رہتی ہے طلوع فجر تک‘‘ (سورۃ القدر۔ ترجمہ ضیاء القرآن) شب قدر کی عظمت: فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے اس قرآن مجید کو اس رات میں اتارا ہے جو قدر و منزلت کے اعتبار سے بے مثل رات ہے۔ یا اس رات میں اتارا جو تقدیر ساز ہے۔ جس کی برکت سے صرف اہل مکہ اور ساکنان حجاز کے مقدر کا ستارہ ہی طلوع نہیں ہوا بلکہ ساری انسانیت کا بخت خفتہ بیدار ہوگیا۔ اس رات میں ایسی کتاب نازل ہوئی جس میں بنی نوع انسانی کو اپنی پہچان اور اپنے خالق کا عرفان عطا فرمایا۔ (ضیاء القرآن) شب قدر کو شب قدر کہنے کی وجہ: حضرت علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شب قدر کو شب قدر اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑی قدر و منزلت والی کتاب (قرآن مجید) بڑی قدر و منزلت والے رسول (حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم) پر اور بڑی قدر و منزلت والی امت (امت محمدیہ) کے لیے نازل فرمائی۔ (تفسیر قرطبی) شب قدر کب عطا ہوئی: شب قدر عطا ہونے کی مختلف وجوہات علماء و مفسرین کرام نے بیان فرمائی ہیں یہاں اختصار کے پیش نظر دو قول بیان کیے جاتے ہیں۔ مجاہد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار مہینوں تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس بات سے بہت تعجب ہوا اور انہوں نے اپنے اعمال کو بہت کم خیال کیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تسلی اور تسکین کے لیے سورۃ القدر نازل فرمائی۔ (بیہقی) علی بن عروہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار اشخاص (حضرت ایوب، حضرت حزقیل، حضرت یوشع اور حضرت زکریا علیہم السلام) کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اسی 80 سال کی عبادت کی اور ان کی زندگی کا ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نہیں گذرا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ سن کر تعجب ہوا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر عرض کیا ’’یا محمد صلّی اللہ علیہ وسلم آپ کی امت کو ان لوگوں کی اسی 80 سال کی عبادت سے تعجب ہوا! اللہ تعالیٰ نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر بہتر چیز نازل فرمادی اور سورۃ القدر پڑھی اور کہا یہ اس چیز سے افضل جس پر آپ کو اور آپکی امت کو تعجب ہوا تھا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خوش ہوئے۔ (ابن ابی حاتم) فضائل و برکات شب قدر: اس شب عظیم الشان قدرت کا ظہور ہوتا ہے کہ ایک رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ عطا فرمایا جاتا ہے۔ (علامہ راغب اصفہانی) اللہ تعالیٰ اس رات میں زندگی، موت، رزق، بارش اور دیگر سال بھر کے احکام کا قلمدان مدبرات امور یعنی حضرت میکائیل، حضرت عزرائیل، حضرت اسرافیل اور حضرت جبریل علیہم السلام کے سپرد فرما دیتاہے۔ (قرطبی) تمام راتوں میں افضل ترین رات رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے میلاد مبارک کی رات ہے، اس کے بعد شب قدر، پھر معراج شریف کی رات، پھر شب عرفہ، پھر شب جمعہ، پھر شب برأت اور پھر شب عید ہے۔ (روح المعانی) اللہ تعالیٰ اس رات میں حضرت جبریل امین علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ سے ستر ہزار فرشتے لے کر زمین پر جائیں ان کے ساتھ نور کے جھنڈے ہوتے ہیں۔ زمین پر اترکر چار مقامات پر انہیں گاڑدیتے ہیں۔ کعبہ معظمہ پر، روضۂ انور پر، مسجد اقصیٰ پر اور مسجد طور سینا پر پھر جبریل علیہ السلام ان تمام فرشتوں کو حکم فرماتے ہیں کہ زمین میں پھیل جاؤ۔ وہ تمام زمین میں پھیل جاتے ہیں اور جہاں بھی کہیں مسلمان مرد یا عورت موجود ہوتے ہیں فرشتے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن جس گھر میں کتا، خنزیر، شراب، تصویر یا بدکاری سے جنبی ہوتا ہے وہاں نہیں جاتے۔ وہاں پہنچ کر فرشتے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں، کلمہ شریف پڑھتے ہیں، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے استغفار کرتے ہیں اور بوقت فجر آسمانوں کی طرف واپس ہوجاتے ہیں جب ان کی ملاقات پہلے آسمان والے فرشتوں سے ہوتی ہے تو وہ ان سے پوچھتے ہیں تم کہاں سے آئے ہو؟ یہ کہتے ہیں ہم دنیا میں تھے کیونکہ آج محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کی شب قدر تھی۔ آسمان والے فرشتے کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آج محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کی حاجات کے سلسلہ میں کیا کیا؟ یہ کہتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے ان میں سے نیک لوگوں کو بخش دیا، اور بدکاروں کے لیے شفاعت قبول فرمالی۔ پھر آسمان دنیا والے فرشتے تسبیح و تقدیس میں شروع ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو امت محمدیہ کی مغفرت فرمائی اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ دوسرے آسمان پر جاتے ہیں تو وہاں پر بھی یہی معاملہ ہوتا ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ، جنت الماویٰ، جنت نعیم، جنت عدن اور جنت الفردوس سے ہوتے ہوئے عرش الٰہی تک پہنچتے ہیں تو عرش بھی امت کی مغفرت پر شکریہ ادا کرتا ہے۔ عرش کرتا ہے ’’یا اللہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ گذشتہ رات تو نے محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کے صالحین کی بخشش فرمائی ہے اور گنہگاروں کے حق میں نیکوکاروں کی شفاعت قبول فرمائی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’اے عرش تم نے سچ کہا محمد مصطفی کی امت کے لیے میرے پاس بڑی عزت و توقیر ہے، اور ایسی نعمتیں ہیں جن کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا کسی کان نے نہیں سنا اور کسی کے دل میں ان نعمتوں کا کبھی خیال بھی نہیں آیا۔‘‘ (غنیۃ الطالبین) عبادت کم، اجر و ثواب زیادہ: جس طرح اکیلے نماز پڑھنے سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے، گھر میں نماز پڑھنے سے مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے، عام مسجدوں میں نماز ادا کرنے سے جامع مسجد میں نماز ادا کرنے کا ثواب زیادہ ہے، باقی مساجد میں نماز ادا کرنے سے بالترتیب مسجد اقصیٰ، مسجد نبوی اور مسجد حرام میں نماز ادا کرنے کا ثواب زیادہ ہے، باقی ایام میں عبادت کرنے سے جمعہ کے دن عبادت کرنے کا ثواب زیادہ ہے، باقی لوگوں کی عبادت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عبادت کا ثواب زیادہ ہے تمام عابدوں سے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا ثواب بہت ہی زیادہ ہے، یوں ہی باقی راتوں میں عبادت کرنے سے شب قدر میں عبادت کرنے کا اجر و ثواب زیادہ ہے۔ رحمت خدابہانہ می جوید، بہا نمی جوید اللہ تعالیٰ کی رحمت کسی بہانے کی تلاش میں ہوتی ہے، رحمت الٰہی کو قیمت کی تلاش نہیں ہوتی، بس بندہ کسی بہانے رحمٰن و رحیم ذات کے دروازے پر آجائے اور رحمت خدا پاجائے۔ شب قدر کی عزت و منزلت کے اسباب وجوہات: وہ وجوہات جو قرآن مجید نے بیان فرمائے ہیں۔ شب قدر میں قرآن مجید کو نازل کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ’’انا انزلنٰہ فی لیلۃ القدر‘‘ اور قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ’’المستجمع لجمیع صفات الکمالیۃ‘‘ کی مالک ہے سب سے افضل، سب اعلیٰ، خالق و مالک، ہر عیب و نقص سے بلکل ہی پاک، لہٰذا اس کے کلام (قرآن مجید) کو بھی باقی تمام کلام پر کمال و برتری حاصل ہے۔ وہ جس رات میں نازل ہوا وہ رات اس کی نسبت سے بڑی قدر و منزلت پاگئی۔ ملائکہ اور روح القدس کا اس رات میں زمین پر نزول ہوتا ہے چنانچہ ارشاد ہوا ’’تنزل الملٰئکۃ والروح‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’شب قدر میں حضرت جبریل علیہ السلام فرشتوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ زمین پر اترتا ہے اور ملائکہ کا یہ گروہ ہر اس بندے کے لیے دعائے مغفرت اور التجائے رحمت کرتا ہے جو کھڑے ہوئے یا بیٹھے ہوئے اللہ عزوجل کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے۔ (درمثنوی) ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام ہر مؤمن (عابد شب قدر) سے مصافحہ کرتے ہیں۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اس وقت مؤمن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کا دل نرم تر ہوجاتا ہے، اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم) یہ رات طلوع فجر تک امن و سلامتی کی رات ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ’’سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر‘‘ اس رات میں نفس و شیطان کی وسوسہ اندازیاں عابدوں کو پریشان نہیں کرتیں۔ بڑی جمعیت خاطر کے ساتھ وہ اپنے رب سے لو لگائے رہتے ہیں اور اس کے ذکر سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں اور یہ روح پرور اور ایماں افروز کیفیت رات بھر صبح کے طلوع ہونے تک جاری رہتی ہے۔ (ضیاء القرآن) وہ وجوہات جو علمائے مفسرین نے بیان فرمائی ہیں: امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’شب قدر کی عزت و منزلت اس وجہ سے ہے کہ اس رات میں کیے جانے والے عمل کی اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی قدر ہے۔‘ ‘(مظہری) علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’شب قدر کی یہ تعظیم و توقیر اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑی قدر و منزلت والی کتاب، بڑی قدر و منزلت والے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم پر اور بڑی قدر و منزلت والی امت کے لیے نازل فرمائی۔‘‘ (قرطبی) اکثر مفسرین کرام فرماتے ہیں ’’اس ایک رات میں جو عمل کیا جاتا ہے وہ ایک ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو۔‘‘ (ضیاء القرآن) حضرت پیر محمد کرم شاہ ازہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’اور یہ بھی مفہوم ہوسکتا ہے کہ انسان کی اصلاح اور فلاح کے لیے جو کام (نزول قرآن) اس ایک رات میں ہوا یہ ہزار مہینوں کی کوششوں سے بہتر اور افضل ہے۔ (ضیاء القرآن) شب قدر کس مہینے اور کس تاریخ کو آتی ہے؟ سورۃ القدر میں بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید کو شب قدر میں نازل کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’انا انزلنٰہ فی لیلۃ القدر‘‘ بے شک ہم نے قرآن مجید کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ (سورۃ القدر) اور سورۃ البقرہ میں بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید کو ماہ رمضان المبارک میں نازل کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن‘‘ ماہ رمضان وہ (متبرک مہینہ ہے) جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا۔ (سورۃ البقر آیت 185) اس سے ثابت ہوا کہ شب قدر ماہ رمضان المبارک ہی کی کوئی رات ہے البتہ تاریخ کے تعین کے بارے میں علماء امت کا بڑا اختلاف پایا جاتا ہے چنانچہ علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے شرح صحیح مسلم جلد سوم صفحہ نمبر 210,209 میں علامہ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے چھیالیس 46 اقوال کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے لیکن جمہور علماء کرام اور کثیر تعداد امت اسلام کا قول و عمل ماہ رمضان المبارک کی ستائیسویں 27 رات میں شب قدر کا ہے۔ شب قدر کو متعین نہ کرنیکی حکمتیں: شب قدر کو متعین نہ کرنے کی علماء مفسرین نے کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں مگر یہاں بخوف طوالت حضرت پیر محمد کرم شاہ ازہری رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر پر اکتفا کی جاتی ہے جو نہایت مختصر مگر جامع اور اقوال مفسرین کا خلاصہ ہے۔ پیر صاحب فرماتے ہیں ’’اس (شب قدر) کو متعین نہ فرمانے میں بھی کئی حکمتیں ہیں تاکہ مسلمان اس رات کو تلاش میں زیادہ نہیں تو کم ازکم پانچ طاق راتیں اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت میں گذاریں۔ اگر رات متعین کردی جاتی تو لوگ صرف اسی رات کو ہی جاگتے اور عبادت کرتے۔ نیز اس رات کو اگر مقرر کردیا جاتا تو اسے ذکر و عبادت میں گذارنے والے تو اجر عظیم کے مستحق قرار پاتے لیکن اسے گناہوں میں صرف کرنے والے بھی سنگین سزا میں مبتلا کیے جاتے کیونکہ انہوں نے شب قدر کو پہچانتے ہوئے اسے خدا کی نافرمانی میں ضایع کیا۔ اس لیے رحمت کا تقاضا یہی ہے کہ اسے ستور رکھا جائے۔ تاکہ اگر کوئی بدنصیب بے صبری میں اس رات کو گناہوں کی بھینٹ چڑھاتا ہے تو اسے گناہ ایک عام رات کا ملے اور جاگنے والے زیادہ راتیں جاگتے رہیں۔ (ضیاء القرآن) شب قدر اور اہل عشق: اہل دل، اہل ذکر، اہل محبت، و اہل عشق۔ عشاق و صوفیاء کے لیے جو رات اپنے مالک حقیقی کی یاد و عبادت میں بسر ہو وہی شب قدر ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں عارف ربانی حضرت عمر بن فارض قدس سرہ کا یہ شعر تمام عشاقان و محبین خدا، صوفیائے کرام کے ہاں نہایت مشہور ہے وکل اللیالی لیلۃ القدر ان دنت کما کل ایام اللقاء یوم جمعۃٖ یعنی اگر محبوب کا قرب نصیب ہوجائے تو ساری راتیں لیلۃ القدر ہیں جس طرح اس کی ملاقات کا ہر دن جمعہ کا مبارک دن ہے۔ شب قدر اور بندگی: رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘ یعنی جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی خاطر قیام کرتا ہے اس کے پچھلے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا ’’یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم لیلۃ القدر نصیب ہوجائے تو کیا دعا مانگوں؟‘‘ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا یہ دعا مانگو ’’اَللّٰہُمَ اِنَّکَ عَفُوٌ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی‘‘ یعنی تو بہت درگذر کرنے والا ہے، تو درگذر کو بہت پسند فرماتا ہے، میرے گناہوں سے بھی درگذر فرمادے۔ علمائے کرام نے فرمایا ’’اس شب میں نوافل کی نماز زیادہ سے زیادہ اد ا کی جائے، اپنے گناہوں پر نادم ہوکر توبہ و استغفار کی کثرت کی جائے۔ پوری توجہ و یکسوئی کے ساتھ گڑگڑا کر دعائیں مانگی جائیں۔ ذکر و اذکار، تسبیحات و تہلیلات، تکبیرات و تمجیدات اور درود سلام اپنے نبی محتشم صلّی اللہ علیہ وسلم پر پڑھتے ہوئے اس شب کو بسر کیا جائے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ میں یقین کامل رکھا جائے کہ آج رات پروردگار عالم نے اپنی بے پایاں عنایات و عطایا سے میرے تمام گناہوں کو بخش دیا۔ اب میں آئندہ کوئی خطا، کوئی جرم، کوئی کوتاہی رب و رسول کے احکامات و ارشادات میں ہرگز نہیں کروں گیا۔ یا اللہ تو معاف فرما درگذر فرما اور یہ سعی حقیر قبول فرما آمین۔
|