فہرست الطاہر
شمارہ 52، رمضان المبارک 1429ھ بمطابق ستمبر 2008ع

فضائل رمضان

محمد جمیل عباسی طاہری

 

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ باب فضل الصوم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں۔

عن ابی ھریرہ ان رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم قال الصیام جنۃ فلا یرفث ولا یحصل فان امراقاتلہ او شاتمہ فلیقل انی صائم مرتین والذی نفسی بیدہ لخلوف فم الصائم اطیب عند اللہ من ریح المسک یترک طعامہ وشرابہ وشہوتہ من اجلی الصیام لی وانا اجزی والحسنۃ بعشر امثالھا۔ (صحیح البخاری۔ رقم الحدیث 1775)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ ڈھال ہے۔ روزہ دار نہ جماع کرے اور نہ ہی جہالت بھری کوئی بات کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے جھگڑا کرے یا گالی گلوچ کرے تو وہ دو مرتبہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے کہ روزہ دار کی منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ دار اپنا کھانا پینا اور شہوانی خواہش میرے لیے ترک کرتا ہے روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کروں گا اور (باقی) نیکیوں کا اجر دس گنا ہے۔

تشریح: حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الصوم جنۃ یعنی روزہ ’’ڈھال ہے‘‘ جنۃ کی معنیٰ ہے ہر وہ چیز جو دوسرے کو چھپالے۔ عرف میں جنۃ ڈھال کو کہتے ہیں۔ روزہ کس چیز سے ڈھال ہے؟ اس بارے میں ترمذی شریف کی حدیث میں ہے روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے۔ امام قاضی عیاض فرماتے ہیں اس سے عام معنیٰ بھی مراد لیا جاسکتا ہے یعنی جہنم سے بھی ڈھال ہے اور گناہوں سے بھی۔

اس حدیث شریف میں روزہ دار کے لیے کچھ کام ضروری قرار دیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ روزہ کی حالت میں رفث نہ کرے۔ عرف عام میں یہ لفظ فحش گوئی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا حدیث شریف میں روزہ دار کو پابند بنایا گیا ہے کہ روزہ کی حالت میں فحش اور بیہودہ کلام نہ کرے۔ ولایجہل (اور نہ جہالت کرے) کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ یعنی ایسے کام جن سے جہالت ظاہر ہوتی ہے مثلا جہالت بھری گفتگو کرنا اوباش لوگوں جیسے فعل کرنا کسی پر ٹھٹھا مخول کرنا وغیرہ وغیرہ۔

فان امرا قاتلہ اوشاتمہ (پھر اگر کوئی اس سے لڑے یا اسے گالی دے) اوپر حدیث کے الفاظوں سے مومن کو پابند کردیا گیا کہ وہ نہ لڑائی کرے نہ فحش اور نہ ہی بیہودہ گفتگو کرے، نہ جہالت کرے۔ یعنی کوئی بھی ایسا کام مومن سے حالت روزہ میں سرزد نہ جس سے وہ کسی کے لیے آزار یا تکلیف کا باعث بنے، تو اب یہ فرمایا جارہا ہے کہ اگر کوئی بدخو شخص خود پہل کرکے مؤمن کو بلاوجہ ایذاء پہنچاتا ہے، اسے کم و بیش کہتا ہے، گالی گلوچ کرتا ہے یا ہاتھا پائی پہ اتر آتا ہے۔ تو روزہ دار کو چاہیے کہ جوابی کاروائی کرنے کے بجائے تحمل اور بردباری سے کام لے کر اسے کہے کہ میں روزہ کی حالت میں ہوں لہٰذا فضول اور بدگوئی مجھے زیب نہیں دیتا۔ اگر ظاہرا یہ الفاظ نہیں کہتا تو دل میں خود کو سمجھا دے کہ روزہ کی حالت میں لڑائی جھگڑے سے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

والذی نفسی بیدہ لَخَلُو فٌالخ: رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے البتہ روزہ دار کے منہ کی بو خدا تعالیٰ کو مشک کی خوشبوء سے زیادہ پسند ہے۔

علامہ خطابی کہتے ہیں کہ بھوک کی وجہ سے منہ میں جو بوء پیدا ہوتی ہے اسے خلوف کہتے ہیں۔ اس بو کا مشک سے زیادہ خوشبو دار ہونا عند اللہ ہے جو کہ دنیا میں باطنی چیز ہے اور آخرت میں انشاء اللہ ظاہری ہوگی اور یہ پسند آنا رضا و قبول سے کنایہ ہے۔ جس طرح کہ مشک سب کو پسند ہے اس کی خوشبو سے ہر ایک خوش ہوتا ہے اس طرح بلاتمثیل اللہ عزوجل روزے سے خوش ہوتا ہے اور اسے قبول فرماتا ہے۔ بعض علماء نے اس کی تشریح میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو روزہ کا آخرت میں اجر دے گا۔ حتیٰ کہ اس کے منہ کی بو مشک سے بھی زیادہ خوشبودار ہوگی جیسا کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں زخمی ہونے والے کے لیے فرمایا کہ ریح المسک۔ اس کی خوشبوء مشک کی ہوگی۔

علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ چونکہ روزے دار کے منہ کی بو سے اس قدر اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے اور اس کی اتم فضیلت ہے اس لیے روزے دار کو مسواک کرکے اس بو کو زائل نہیں کرنا چاہیے۔ اور حضرات شوافع کا بھی یہی قول ہے لیکن احناف کا کہنا ہے کہ اگر روزے کی حالت میں مسواک نہ کرنے کی زیادہ فضیلت ہوتی تو آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مسواک سے اجتناب کرتے مگر ہم دیکھتے ہیں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں مسواک کو ترک کردیا۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بھی روزے کی حالت میں مسواک کو ترک نہیں کیا۔ بلکہ احادیث مبارکہ بغیر کسی استثناء کے مسواک کی سخت تاکید ہے۔ لہٰذا محض قیاس کرکے مسواک کی سنت مبارکہ کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔

الصوم لی (روزہ بالخصوص میرے لیے ہیں) کے وجوہات:

اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزے کی اضافت اپنی طرف فرمائی ہے کہ روزہ میرے لیے ہے۔ حالانکہ تمام تر عبادات خدا تعالیٰ کے لیے ہی ہوتی ہے تو روزہ کو خاص کرنیکے بارے میں علماء کرام کچھ وجوہات تحریر کرتے ہیں۔

1؂ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں دکھاوے یا ریا کا شائبہ تک نہیں ہوسکتا جبکہ دوسرے اعمال میں مثلا نماز، حج، زکوٰۃ، صدقات، خیرات وغیرہ میں ریا کاری ممکن ہے۔ کیونکہ نماز مخصوص شرائط اور مخصوص حیثیت سے ادا کی جاتی ہے جس سے دیکھنے والا جان سکتا ہے کہ یہ شخص نماز پڑھ رہا ہے۔ اسی طرح حج کرنے والے کا عمل بھی معروف ہوجاتا ہے اور جو شخص زکوٰۃ و صدقات و خیرات دیتا ہے وہ ان زکوٰۃ لینے والے فقراء، غریبوں اور مسکینوں میں جانا جاتا ہے مگر روزے میں کوئی بھی ایسا عمل نہیں جس سے دیگر مطلع ہوجائیں کہ یہ شخص روزہ دار ہے۔

2؂ روزے دار کو تنہائی میں ایسے بہت سے مواقع حاصل ہوتے ہیں کہ اگر کھا پی لے تو کسی کو علم نہ ہوگا مگر خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے خوف سے وہ اپنی فطری خواہشوں پر قابو کرتا ہے۔

3؂ باقی عبادات ظاہری کو فرشتے لکھتے ہیں مگر روزہ کو نہیں لکھتے۔

4؂ باطل خداؤں کے لیے دوسری عبادت کی گئیں ہیں مثلا قیام، رکوع، سجود، طواف، نذر و نیاز اور ان کی خاطر لڑائی مگر روزہ ایسی عبادت ہے جو کسی باطل خدا کے لیے اختیار نہیں کی گئی۔

5؂ روزے دار کو بروز قیامت اللہ تعالیٰ اپنے دیدار سے نوازے گا۔

6؂ روزے کا اجر خدا تعالیٰ خود بھی عنایت کرے گا۔

7؂ قیامت کے دن باقی عبادات لوگوں کے حق کے بدلے حقدار لوگوں کو دی جائیں گے لیکن روزہ کسی کو نہیں دیا جائے گا۔

بیہقی شریف میں ابن عیینہ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن جب خدا تعالیٰ ایک بندے سے حساب لے گا تو اس پر جن لوگوں کے حقوق ہوں گے اس کے بدلے ان کو اس کی عبادات دی جائیں گی حتیٰ کہ اس کی عبادات میں صرف روزہ باقی بچیگا پھر خدا تعالیٰ اپنی طرف سے لوگوں کے حق ادا کرے گا اور روزہ کے بدلے اس شخص کو جنت میں داخل کرے گا۔

والحسنۃ بعشر امثالہا: اور اس کا ثواب دس گنا ہے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا تو ظاہر ہے کہ اس قدر دیا جاتا ہے جس قدر دینے والے کی سخا و شان ہو اور پھر جب کسی کام کے صلے میں راضی و خوش رہ کر عنایت کرے پھر اس کا اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہاں پر جو دس گنا دینے کا حکم ہے اس سے کوئی مقرر کردہ حد مقصود نہیں ہے، کیونکہ مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کل حسنۃ بعشر امثالہا الیٰ سبع مأۃ ضعف الاالصیام لی وانا اجزی بہ۔ کہ ابن آدم کے ہر عمل میں روزے کے علاوہ نیکی کو دس سے سات سو گنا تک بڑھادیا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں دوں گا، تو اس سے ثابت ہوا کہ روزے کا ثواب جو دس گنا تک بتایا گیا ہے اس کی معنیٰ ہے کہ کم از کم روزے کا ثواب دس گنا تک دیا جائے گا اور روزے کا زیادہ سے زیادہ ثواب کا اندازہ کرنا ممکن نہیں۔ جس طرح کہ مذکورہ حدیث سے ظاہر ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنی رضا سے روزدہ دار کو روزہ کا بدلا عنایت کرے گا تو خدا تعالیٰ کے پاس کسی چیز کی کمی ہی نہیں ہے تو روزے کا ثواب بھی خدا تعالیٰ کی عطا پر ہے۔ جس قدر خدا تعالیٰ کی عطا زیادہ ہے اس قدر روزہ کا اجر ملنا ممکن ہے۔

باب الریان للصائمین میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت سہل کی روایت بیان کرتے ہیں:

عن سہل عن النبی صلّی اللہ علیہ وسلم قال ان فی الجنۃ بابا یقال لہ الریان یدخل من الصائمون یوم القیٰمۃ لابد منہ احد غیرہم یقال این الصائمون فیقومون لایدخل منہ احد غیرہم فاذا دخلوا اغلق فلم یدخل منہ احد۔ (صحیح بخاری جلد اول رقم الحدیث 1777)

ترجمہ: حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں، اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ دار ہی داخل ہوں ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہ ہوگا۔ کہا جائیگا روزہ دار کہاں ہیں؟ پھر وہ کھڑے ہوجائیں گے۔ ان کے سوا کوئی شخص اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب روزہ دار داخل ہوجائیں گے تو وہ دروازہ بند کیا جائے گا۔ پھر اس میں سے کوئی بھی داخل نہیں ہوگا۔

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ قال قال رسول اللہ اذا دخل رمضان فتحت ابواب السماء وغلقت ابواب جہنم وسلسلت الشیاطین۔

(صحیح البخاری جلد اول رقم الحدیث 1779)

ترجمہ: رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ داخل ہوتا ہے تو آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قال قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کل عمل ابن اٰدم یضاعف الحسنۃ عشر امثالہا الیٰ سبع مائۃ ضعف قال اللہ الاالصوم فانہ لی وانا اجزی بہ شہوتہ وطعامہ من اجلی للصائم فرحتان فرحۃ عنہ فطرہ وفرحتہ عنہ لقآء ربہ ولخلوف فیہ اطیب عند اللہ من ریح المسک۔ (صحیح المسلم رقم الحدیث 263)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن آدم کے ہر عمل میں روزہ کے علاوہ نیکی کو دس سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لاریب روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا۔ کیونکہ روزہ دار میری وجہ سے اپنے کھانے اور اپنی شہوت سے دست بردار ہوتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی روزہ کھولنے کے وقت اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت اور اس کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبوء سے زیادہ خوشبودار ہے۔

سحری کی فضیلت: عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال النبی صلّی اللہ علیہ وسلم تسحروا فان فی السحور برکۃ (بخاری شریف حدیث 1128)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک سے روایت ہے نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔

حدیث مذکورہ میں سحری کھانے سے برکت کے حاصل ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ برکت کی اصل معنیٰ زیادتی ہے اور اس برکت سے مراد دنیوی اور اخروی برکت کا حصول ہے۔ دنیوی برکت سے مراد ہے کہ سحری سے انسان کے بدن کو قوت حاصل ہوتی ہے اور سحری کی وجہ سے دوران روزہ انسان تقویت حاصل کرتا ہے اور اسے زیادہ بھوک برداشت نہیں کرنا پڑتی اور اخروی برکت سے مراد ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل کرنے سے روز قیامت اجر و ثواب سے بھی نوازا جائے گا۔ اس لیے سحری کے لیے احادیث میں ترغیبات آئی ہیں، جس طرح کہ ایک حدیث میں ہے کہ سحری کرو اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ سے ہی۔ نیز سحری کرنے سے روزہ کی نیت تازہ ہوجاتی ہے جسکی وجہ سے روزہ بالاتفاق صحیح ہوجاتا ہے اور سحری کھانے کے وقت کچھ نہ کچھ ذکر الٰہی کا موقعہ بھی مل جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ضرور حاصل ہوتی ہے اور جس شخص کو توفیق حاصل ہو وہ نماز تہجد یا دیگر ذکر اذکار ضرور کرے۔ ہمارے مرشد و مربی حضرت محبوب سجن سائیں قلبی و روحی فداہ سحری کے وقت تہجد کے ادائیگی کے ساتھ تلاوت قرآن مجید و دیگر تسبیحات کا بالضرور اہتمام کرتے ہیں۔ اسی لیے جو رضائے باری تعالیٰ کا خواہش مند ہو وہ ان عبادات کے حصول میں ضرور سبقت کرے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ مسلمان جب روزہ رکھتے ہیں اور شب کو عبادت کرتے ہیں اور جو ان میں سے کاملین ہے وہ نور الٰہی کے دریا میں غوطہ لگاتے ہیں تو ان کی دعا سب مسلمانوں کا احاطہ کرلیتی ہے اور ان کے انوار کا پرتو ادنیٰ لوگوں پر پڑتا ہے اور ان کی دعا تمام گروہ پر چھا جاتی ہے اور ہر شخص اپنی قابلیت کے موافق عبادت سے قربت حاصل کرتا ہے اور معاصی سے اجتناب کرتا ہے تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ان کے لیے جنت کے دروازے بند کردیے گئے کیونکہ فی الحقیقت جنت خدا تعالیٰ کی رحمت اور جہنم خدا تعالیٰ کی پھٹکار کا نام ہے۔ اس لیے تمام روئے زمین کے لوگوں کا ایک صفت پر متفق ہوجانا اپنے موافق خدا تعالیٰ کی سخا کو متوجہ کرلینا ہے اور یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ شیطان مقید کرلیے گئے ہیں اور ملائکہ منتشر کردیے گئے ہیں، اس لیے کہ شیطان کا اثر اسی شخص میں ہوتا ہے جس نفس میں اس کا اثر قبول کرنے کی قابلیت ہو اور قوت بہیمی کے غلبے سے یہ قابلیت حاصل ہوتی ہے اور روزہ کے سبب مغلوب ہوجاتی ہے اور ملائکہ لوگوں کے پاس آتے ہیں تو لوگوں میں ان کا اثر قبول کرنے کی لیاقت ہوتی ہے اور وہ لیاقت قوت ملکی کے ظہور سے ہوتی ہے اور روزہ کے سبب قوت ملکی کا ظہور ہوتا ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ)

سحری کھانے کا وقت: عن سہل بن سعد رضی اللہ عنہ قال لما نزلت ہٰذہٖ الآیت وکلوا وشربوا حتیٰ یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود قال کان الرجل یاخذ خیطا ابیض وخیطا اسود فیاکل حتیٰ انزل اللہ عزوجل من الفجر فتبین ذالک۔

ترجمہ: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب آیت نازل ہوئی (اس وقت تک کھاتے رہو جب تک سفید دھاگہ کالے دھاگے سے ممتاز نہ ہوجائے) تو ایک صاحب سفید دھاگے اور سیاہ لیتے اور اس وقت کھاتے رہتے جب تک ان میں فرق ظاہر نہ ہوجاتا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے من الفجر کا لفظ فرمایا اور بیان فرمایا کہ سفید اور سیاہ دھاگے سے مراد دن اور رات ہیں۔

حضرت سہل بن جندب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص حضرت بلال کی آذان سے دھوکہ نہ کھائے (حضرت بلال جلد آذان دیتے تھے اور ان کی آذان کا مقصد سحری کھانے اور نوافل پڑھنے کی طرف توجہ دلانا ہوتا تھا) اور افق کی طرح سفیدی سے بھی دھوکہ نہ کھائے حتیٰ کہ وہ آسمان کے کنارے میں پھیل نہ جائے (مسلم شریف رقم الحدیث 2441)

ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صبح صادق تک سحری کرنے کے لیے وقت مقرر کیا گیا ہے اور یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ تاخیر سے سحری کرنا سنت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم ہے اور باری تعالیٰ کے فضل و رضا مند کی علامت ہے۔

سحری میں تاخیر کرنا: آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم سحری کھانے میں تاخیر کرتے تھے اور طلوع فجر کے وقت سحری کرتے تھے۔

عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم امرنا ان نعجل افطارنا ونوخر سحورنا (السنۃ الکبریٰ)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے روزہ جلد افطار کرنے اور سحری میں تاخیر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

سحری کا حکم: جملہ ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ سحری کھانا مستحب ہے۔

افطار: سورج کے غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرنے کا وقت ہوجاتا ہے اور جب سورج غروب ہوجانے کا یقین ہوجائے تو پھر روزہ کھولنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

افطاری میں جلدی کرنے کی فضلیت: عن سہل بن سعد ان رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم قال لایزال الناس بخیر ماعجلو الفطر (صحیح بخاری رقم الحدیث 1151)

حضرت سہل بن سعد سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ ہمیشہ بھلائی پر رہیں گے جب تک افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم قال اللہ عزوجل احب عبادی الیٰ اعجلہم فطرا۔ (ترمذی شریف)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ مجھے وہ بندے پیارے ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں۔

افطار کا حکم: افطار میں جلدی کرنے کے مستحب ہونے پر امت کا اتفاق ہے۔

کس چیز سے افطار کرنا چاہیے: عن سلیمان بن عامر قال قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اذا کان احدکم صائما فلیفطر علی التمر فان لم یجد التمر فعلی الماء فان الماء طہور۔ (ابوداؤد شریف باب مایفطر علیہ)

حضرت سلیمان بن عامر سے روایت ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں میں سے جب کوئی روزہ رکھے تو اس کو چاہیے کہ کھجور سے روزہ افطار کرے اور اگر کھجور نہ ہو تو پانی سے روزہ کھولے۔ کیونکہ پانی پاک ہے۔

عن انس بن مالک یقول کان رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم یفطر علی رطبات قبل ان یصلی فان لم تکن فعلیٰ تمرات فان لم تکن حساً حسوات من ماء۔ (ابی داؤد رقم الحدیث)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم تر کھجور سے روزہ افطار کیا کرتے تھے۔ اگر تر کھجور میسر نہ ہو تو خشک کھجور سے افطار فرماتے ورنہ پانی کے چند گھونٹ لے لیتے۔

کھجور کی جامعیت اور اس سے افطار کرنے کی فضلیت: امام ربانی مجدد و منور الف ثانی اپنے مکتوبات مبارکہ میں لکھتے ہیں ’’حضرت رسالت خاتمیہ علی الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اذا افطر احدکم ویفطر علی تمر فانہ برکۃً کہ جب تم میں سے کوئی شخص روزہ افطار کرنا چاہے تو اس کو تمر سے افطار کرنا چاہیے کیونکہ اس میں برکت ہے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے روزہ تمر سے افطار کیا ہے اور تمر میں برکۃ کا موجب یہ ہے کہ اس کا درخت ایک ایسا درخت ہے جو انسان کی طرح جامعیت اور عدلیت کے طور پر پیدا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس نخل کو بنی آدم کی عم (یعنی پوپھی) فرمایا ہے۔ کیونکہ وہ آدم کی مٹی سے پیدا ہوئی ہے۔ جیسے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اکرموا عمتکم النخلۃ فانہا خلقت من بقیۃ طینۃ۔ اے بنی آدم اپنے درخت خرما کی تعظیم کرو کیونکہ وہ آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بقیہ مٹی سے پیدا کی گئی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کا نام برکت اسی جامعیت کے اعتبار سے ہو۔ پس اس کے پھل سے جو تمر ہے، افطار کرنا صاحب افطار کی جزو بن جاتا ہے اور اس کی حقیقت جامع میں جزئیت کے اعتبار سے اس کے کھانے والے کی حقیقت کی جزو ہوجاتی ہے اور اس کا کھانے اس اعتبار سے ان بیشمار کمالات کا جامع ہوجاتا ہے جو اس تمر کی حقیقت جامع میں مندرج ہے۔ یہ مطلب اگرچہ اس کے مطلق کھانے میں حاصل ہوجاتا ہے لیکن افطار کے وقت جو روزہ دار کے شہوات مانع اور لذات فانیہ سے خالی ہونے کا وقت ہے۔ اس کا کھانا زیادہ تاثیر کرتا ہے اور یہ مطلب کامل اور پورے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔