فہرست الطاہر
شمارہ 54، ربیع الاول 1430ھ بمطابق مارچ 2009ع

 

اثبات المولد والقیام

تصنیف: حضرت شاہ احمد سعید مجددی دہلوی

ترجمہ: مولانا محمد رشید صاحب نقشبندی

 

سب خوبیاں اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اگرچہ کافروں کو ناپسند ہو۔ حضور خاتم النبین اور آنکھوں کے نور، آپ کے آل و اصحاب پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں۔

میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل پوچھنے والے اے عالمو! یاد رکھو! میلاد شریف کی محفل میں آپ کی کمال شان پر دلالت کرنے والی آیات، صحیح احادیث، ولادت باسعادت، معراج شریف، معجزات اور وفات کے واقعات کا بیان کرنا ہمیشہ سے بزرگان دین کا طریقہ رہا ہے، لہٰذا تمہارے انکار کی ضد کے سوا کوئی وجہ نہیں۔

اگر تم مسلمان ہو اور محبوب رب العالمین سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سننے کا شوق ہے تو ہمارے پاس آؤ اور (ہم سے احوال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم) سنو، تمہیں پتہ چلے کہ ہمارا دعویٰ حقیقت پر مبنی ہے۔ محفل میلاد دراصل وعظ و نصیحت ہے، اس کے لئے جو کان لگائے اور متوجہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ”نصیحت کرو بے شک نصیحت مؤمنین کے لیے مفید ہے۔“

ہمارے زمانہ کے جہلاء جو اپنے آپ کو ”پڑھا لکھا“ اور ”صالحین“ سمجھتے ہیں، کے وعظ کی طرح نہ ہو جو انبیاء، اولیاء کی توہین اور مومنین کی غیبت کا مجموعہ ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں غیبت سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے ”ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی اپنے مرے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ تمہیں ہرگز یہ گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔“ جاہل واعظ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔ خود برباد ہوئے دوسروں کو برباد کرتے ہیں۔ اپنے آپ سے بے خبر چند بے وقوف شرپسند اور متکبر اگر چراغ تک پہنچتے ہیں تو ہوا بن جاتے ہیں (یعنی چراغ ہدایت کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں) اور دماغ تک پہنچتے ہیں تو دھواں ہوجاتے ہیں (یعنی اس کو تاریک کرنے کی کوشش کرتے ہیں)۔ اللہ تعالیٰ ان سے بچائے۔ ذکر رسول اللہ تعالیٰ کا ہی ذکر ہے۔ حضرت ابوسعید خدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ”میرے پاس جبرئیل آئے اور کہا بے شک میرا اور آپ کا رب فرماتا ہے آپ جانتے ہیں میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا؟ میں نے کہا اللہ بہتر جانتا ہے۔ (جبرئیل نے) کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے تو آپ کا میرے ساتھ ذکر کیا جائے“ ابن عطا سے روایت ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے (اللہ نے) آپ کے ساتھ اپنے ذکر کو تکمیل ایمان کا ذریعہ بنایا۔ ابن عطا ہی سے روایت ہے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ میں نے آپ کو اپنا ذکر بنادیا جس نے آپ کا ذکر کیا اس نے میرا ذکر کیا (شفاء)

اب ہم اشرار کے علی الرغم اکابرکی ذ کرکردہ خاص دلیلیں بھی ذکر کرتے ہیں۔حافظ ابو الفضل ابن حجر نے حدیث سے ایک ضابطہ کا استخراج فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ”حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مدینہ شریف تشریف لائے تو وہاں کے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو ان سے دریافت فرمایا کہ تم عاشورہ کا روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ دن نہایت مقدس ہے، مبارک ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق فرمایا اور حضرت موسیٰ کو نجات بخشی اور ہم تعظیماً اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہم موسیٰ علیہ السلام کا دن منانے میں تم سے زیادہ حقدار ہیں پس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کور وزہ رکھنے کا حکم دیا۔“

معلوم ہوا جس دن اللہ تعالیٰ کی کسی خاص نعمت کا نزول ہو یا کسی مصیبت سے نجات ہو نہ صرف اسی دن، بلکہ ہر سال اس تاریخ کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانے کے مختلف طریقے ہیں۔ عبادت، قیام، سجود، صدقہ اور تلاوت وغیرہ۔ اور یوم میلاد شریف وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت عظمیٰ اور رحمت عطا ہوئی۔ لہٰذا قصہ حضرت موسیٰ کے ساتھ مطابقت کے لیے ہر سال یوم میلاد کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اور کہا ہمارے شیخ شیخ الاسلام علامہ جلال الدین سیوطی نے کہ حافظ ابوالفضل کی دلیل کے علاوہ بھی میرے پاس ایک دلیل ہے اور وہ یہ کہ امام بیہقی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا عقیقہ اعلان نبوت کے بعد خود کیا۔ حالانکہ آپ کے دادا عبدالمطلب آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کرچکے تھے اور عقیقہ بار بار نہیں ہوتا ایک ہی دفعہ ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایسا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ادائے شکر کے طور پر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمت اللعالمین بنایا اور ہمیں آپ کی امت ہونے کا شرف بخشا ۔جس طرح آپ خود اپنی ذات پر درود و سلام بھیجا کرتے تھے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم آپ کے میلاد کی خوشی میں جلسہ کریں، کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات اور خوشی کے جو طریقے ہیں، کے ذریعے شکر بجالائیں۔ شرح سنن ابن ماجہ میں اس یوم کی تصریح بھی ہے اور امام جلال الدین نے فرمایا کہ میلاد مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام معظم اور مکرم ہے، آپ کا یوم ولادت مقدس و بزرگ اور یوم عظیم ہے۔ آپ کا وجود عشاق کے لیے ذریعہ نجات ہے۔ جس نے نجات کے لیے ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کا اہتمام کیا اس کی اقتداء کرنے والے پر بھی رحمت و برکت کا نزول ہوگا۔ یوم ولادت اس لحاظ سے جمعہ کے مشابہ ہے کہ جمعہ والے دن جہنم میں آگ نہیں بھڑکائی جاتی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یونہی مروی ہے۔ اظہار خوشی اور اپنی بساط کے مطابق خرچ کرنا اور جو دعوت ولیمہ دے اس کی دعوت قبول کرنا بہت اچھا ہے۔ امام ابو عبد بن الحاج نے اس ماہ کی یوں فضیلت بیان فرمائی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کو فضیلت عطا فرمائی۔ سید الاولین والآخرین کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر بجالاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عبادت اور نیکی کی جائے۔ اگرچہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ماہ میں معمول سے زیادہ کچھ نہیں کیا کرتے تھے، یہ آپ کی امت پر مہربانی اور شفقت تھی۔ حضور علیہ اصلوٰۃ والسلام کوئی کام اس لیے بھی چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے۔ ایسا امت پر شفقت کی وجہ سے تھا لیکن آپ نے اس ماہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔

ایک سائل نے بروز پیر روزہ رکھنے کے متعلق آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس دن میں پیدا ہوا ۔آپ کا یوم ولادت ربیع الاول کی شرافت کو مستلزم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس ماہ کا سخت احترام کریں۔ اس مہینہ کو ان تمام مہینوں، زمانوں اور امکنہ سے زیادہ سمجھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بعض عبادات کے لیے خاص کیا ہے۔ ظاہر ہے کسی جگہ یا زمانہ کو بذات کوئی فضیلت نہیں ۔فضیلت صرف ان واقعات کی وجہ سے ہے جو کسی جگہ یا زمانہ میں رونما ہوئے۔ ذرا غور کرو ربیع الاول میں پیر کے دن کون تشریف لایا؟ کیا تمہیں معلوم نہیں؟ پیر والے دن روزہ رکھنا صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یوم ولادت کی وجہ سے عظیم فضیلت رکھتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جب ربیع الاول کی تشریف آوری ہو اول سے آخر تک انتہائی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ کیا جائے اور یہ آپ کی سنت ہے کیونکہ آپ اس دن نیکی اور خیرات زیادہ کرتے تھے جس دن کوئی فضیلت والا واقعہ پیش آتا۔

شیخ احمد بن خطیب قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں ”اللہ تعالیٰ نے جمعہ میں ایک ایسی گھڑی کہ ہر دعا اس میں قبول ہوتی ہے، صرف اس لیے رکھی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جمعہ کو پیدا ہوئے اور پیر جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یوم ولادت ہے اس کی کیا شان ہوگی؟“۔

حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پیر کو روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا۔ آپ نے فرمایا اس دن ہی میں پیدا ہوا ہوں اور اسی دن مجھ پر نبوت نازل ہوئی۔ (مسلم)

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پیر کو پیدا ہوئے اور پیر کو ہی آپ کو نبوت ملی اور پیر کو ہی آپ نے ہجرت فرمائی پیر کوہی آپ مدینہ منورہ داخل ہوئے اور پیر کو ہی حجاب اٹھائے گئے۔ (مسند)

حافظ ابو شامہ شیخ النووی اپنی کتاب ”الباعث علیٰ انکار البدع والحوادث“ میں فرماتے ہیں ایسے اچھے کاموں کی دعوت دینی چاہیے اور اہتمام کرنے والے کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرنی چاہیے۔ شیخ امام عالم علامہ نصیرالدین مبارک اپنے قلمی فتویٰ میں فرماتے ہیں ”یہ جائز ہے، خلوص نیت سے ایسا کرنے والے کو ثواب ہوگا۔“

امام ظہیر الدین فرماتے ہیں ”یہ حسن ہے جب کہ اہتمام کرنے والے کا مقصد صالحین کو جمع کرنا نبی امین کی بارگاہ میں ہدیہ صلوٰت پیش کرنا اور غرباء و مساکین کو کھانا کھلانا ہو، مذکورہ شرط کے ساتھ اس حد تک ایسے کام ہروقت موجب ثواب ہیں۔“

شیخ نصیرالدین فرماتے ہیں ”یہ عمدہ اجتماع ہے جس کے انعقاد پر ثواب ملے گا۔ نیک لوگوں کو کھانا کھلانے اور اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بارگاہ رسالت میں ہدیہ درود پیش کرنے کے لیے جمع کرنا عبادات کے اجروثواب کی زیادتی کا سبب ہے۔“ امام ابو محمد عبدالرحمٰن بن اسمٰعیل کا ارشاد گرامی ”ہمارے زمانے کا بہترین نیا کام ہر سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن صدقات خیرات کرنا، زیب و زینت اور مسرت کا اظہار ہے۔ کیونکہ اس میں فقراء پر احسان بھی ہے اور محفل میلاد کرنے والے کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور تعظیم و تکریم کی علامت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکر ہے کہ اس نے تمام جہانوں کے لیے باعث رحمت اپنے رسول کو پیدا فرمایا، صلی اللہ علیہ وعلیٰ جمیع الانبیاء والمرسلین۔“

اسی طرح شیخ امام صدرالدین ہوہوب بن عمر الجزری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ”یہ تمام سیرت شامیہ سے منقول ہیں۔“

سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے اور اپنا کھوٹا سکہ رائج کرنے کے لیے اس فرقہ باطلہ نے ایک نیا طریقہ نکالا ہے، ہمارے بزرگوں کو بدنام کرتے ہیں، کہتے ہیں فلاں بزرگ نے یوں لکھا، فلاں نے لکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے جھوٹ سے پاک ہے۔ رہا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تذکرہ ولادت کے وقت کھڑے ہونے کا مسئلہ، تو آپ کی حیات طیبہ میں آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونا صحابہ کرام سے ثابت ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم آپ کو ساتھ مسجد میں باتیں کیا کرتے تھے، جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کھڑے ہوتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے تاوقتیکہ حضور اپنی کسی زوجہ محترمہ کے حجرہ میں داخل ہوجاتے۔
اور جان لو! حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعظیم و توقیر جس طرح حیات طیبہ میں لازم تھی اسی طرح بعد از وصال بھی لازم ہے اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اس وقت ہوگی جب آپ کا ذکر کرے، حدیث بیان کرے، آپ کی سنت بیان کرے یا آپ کا اسم شریف اور سیرت پاک سنے۔

حرمین شریفین کے علماء کرام اور مذاہب اربعہ کے مفتیان عظام اس کے مستحب ہونے کا فتویٰ دے چکے ہیں بلکہ ایک حنبلی مفتی نے تو اس کے وجوب کا قول کیا ہے۔

امام سید جعفر برزنجی قدس سرہ العزیز اپنے ”رسالہ عقد الجوہر“ میں فرماتے ہیں ”بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر ولادت کے وقت قیام کرنا ان اماموں نے مستحسن سمجھا جو صاحب روایت و درایت تھے اس شخص کو مبارک ہو جس کا مقصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے۔“

اب ہم علماء مذکورین کے فتوے نقل کرتے ہیں بغور سننے کے قابل ہیں۔

سوال: نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت باسعادت اور مولد مبارک پڑھتے وقت عرب و عجم کے علماء و صلحاء کے درمیان مروج قیام کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ واجب ہے؟ یا مستحب ہے؟ یا مباح ہے؟ مدلل اور شافی، کافی جواب ارشاد فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

جواب: عبداللہ سراج مکی مفتی حنفیہ فرماتے ہیں ”یہ قیام مشہور اماموں میں برابر چلا آتا ہے اور اسے ائمہ و حکام نے برقرار رکھا ہے اور کسی نے رد و انکار نہ کیا، لہٰذا مستحب ٹھہرا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کون مستحق تعظیم ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کافی ہے کہ جس چیز کو مسلمان بہتر سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے۔“

مشہور فقیہ، محدث عثمان بن حسن ومیاطی شافعی اپنے رسالہ ”اثبات قیام“ میں فرماتے ہیں ”حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر ولادت کے وقت قیام کرنا ایک ایسا امر ہے جس کے مستحب و مستحسن و مندوب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور قیام کرنے والے کو ثواب کثیر اور فضل کبیر حاصل ہوگا کیونکہ یہ قیام تعظیم ہے، کس کی؟ اس نبی کریم صاحب خلق عظیم علیہ التحیۃ والتسلیم کی جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ ہمیں ظلمات کفر سے ایمان کی طرف لایا اور ان کے سبب سے ہمیں دوزخ جہل سے بچاکر بہشت معرفت و یقین میں داخل فرمایا، تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں خوشنودی رب العالمین کی طرف دوڑنا ہے اور قومی ترین شعائر دین کا آشکار کرنا، اور جو تعظیم کرے شعائر خدا کی تو وہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے اور خدا کی حرمتوں کی تعظیم کرنے والا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر ہے۔“

اس کے بعد بہت سے دلائل نقل کرکے فرمایا ”ان سب دلائل سے ثابت ہوا کہ ذکر ولادت شریفہ کے وقت قیام مستحب ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے۔“

امام صر صر حنبلی فرماتے ہیں

قلیل لمدح المصطفیٰ الحط بالذہب
علیٰ فضۃ من خط احسن من کتب

وان ینہض الاشراف عند سماعہٖ
قیام صفوفا اوجثیا علی الرکب

”مدح مصطفی کے لیے یہ بھی تھوڑا ہی ہے کہ جو سب سے اچھا خوشنویس ہو اس کے ہاتھ سے چاندی کے پتر پر سونے کے پانی سے لکھی جائے اور جو لوگ شرف دینی رکھتے ہیں وہ ان کی نعت سن کر صف باندھ کر سروقد یا گھٹنوں کے بل کھڑے ہوجائیں۔“

جس کو اللہ تعالیٰ توفیق اور ہدایت دے اس کے لیے اس قدر کافی ہے۔ وصلی اللہ سیدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وسلم تسلیما کثیرا۔ یہ (فتویٰ) فقیر اپنے رب کا دنیا و آخرت میں محتاج، عثمان حسن ومیاطی شافعی خادم طلباء مسجد حرام وسابق مدرس جامع ازہر نے دیا ہے اور املاء کرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے گناہ معاف فرمائے اور دنیا و آخرت میں سب احباب کی پردہ پوشی فرمائے والحمدﷲ رب العالمین۔

عبداللہ بن محمد المیرغنی الحنفی مفتی مکہ مکرمہ فرماتے ہیں ”الحمدللہ عن شانہ رب زدنی علما۔ اے اللہ میرا علم زیادہ فرما۔ سید الاولین والآخرین کی ولادت مبارکہ کے ذکر کے وقت قیام کو بہت علماء نے پسند کیا ہے ۔ واللہ اعلم۔

حسین ابن ابراہیم مفتی مالکیہ بمکہ فرماتے ہیں ”الحمدللہ وحدہ اللّٰھم ہدایۃ للصواب۔ ہاں ذکر ولادت کے وقت قیام بہت علماء نے پسند کیا اور قیام حسن ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واجب ہے۔ واللہ اعلم۔“

محمد عمر ابن ابی مفتی شافعیہ مکہ مکرمہ کا ارشاد ہے ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے ذکر کے وقت قیام واجب ہے کیونکہ روح اقدس حضور معلی صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ فرما ہوتی ہے تو اس وقت تعظیم و قیام لازم ہو۔ا جید علماء اسلام اور اکابر نے قیام مذکور پسند فرمایا ہے۔“

محمد بن یحییٰ مفتی ضابلہ مکہ مشرفہ نے بھی ذکر ولادت کے وقت قیام کے استحباب و استحسان کی تصریح فرمائی ہے۔ رہا تمہارا سوال کہ ہم نے ربیع الاول شریف میں ایک اپنی طرف سے ”تیسری عید“ بنالی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف کے مہینہ کی نہ صرف ایک ہی رات بلکہ سب راتوں کو عید منائیں، علماء کبار اور محدثین کی تصریحات موجود ہیں۔

امام احمد بن خطیب العسقلانی نے اپنی کتاب مواہب الدنیہ میں ذکر کیا ”ابولہب کی آزاد کردہ لونڈی ثوبیہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔ نے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت باسعادت کی ابولہب کو جب خوشخبری سنائی تو اس نے ثوبیہ کو آزاد کردیا۔ جب ابولہب مرگیا تو کسی نے اس کو خواب میں دیکھا پوچھا کیا گذری؟ ابولہب نے کہا آگ میں جل رہا ہوں ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہر پیر کی رات مجھ سے عذاب ہلکا کیا جاتا ہے۔

اور ابہام وسبابہ کے درمیانی مغاک کی مقدار مجھے پانی مل جاتا ہے جسے میں انگلیوں سے چوس لیتا ہوں۔

اور یہ اس لیے کہ میں نے حضرت کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کردیا تھا اور اس نے آپ کو دودھ پلایا تھا۔

ابن جوزی نے کہا ”ابولہب ایسا کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک کی پوری سورۃ ”تبت یدا ابی لہب الخ“ نازل ہوئی کو عذاب جہنم کی تخفیف کا فائدہ ہوا صرف اس لیے کہ اس نے ولادت مصطفی کی خوشی منائی۔ جب ایک کافر کو یہ فائدہ پہنچا تو اس موحد غلام کا کیا حال ہوگا جو آپ کی ولادت سے مسرور ہوکر آپ کی محبت میں بقدر طاقت خرچ کرتا ہے۔“ میری جان کی قسم اللہ کریم کی طرف سے اس کی یہی جزا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے اس کو جنات نعیم میں داخل فرمائے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے مہینہ میں اہل اسلام ہمیشہ میلاد کی محفلیں منعقد کرتے چلے آئے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانا پکاتے اور دعوتیں کرتے اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور آپ کے میلاد شریف کے پڑھنے کا خاص اہتمام کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ان پر اللہ کے فضل عمیم اور برکتوں کا ظہور ہوتا ہے، اور میلاد شریف کے خواص میں سے آزمایا گیا ہے کہ جس سال میلاد شریف پڑھا جاتا ہے وہ سال مسلمانوں کے لیے حفظ و امان کا سال ہوجاتا ہے اور میلاد شریف کرنے سے دلی مرادیں پوری ہوتی ہے۔
بے شک شب میلاد، شب قدر سے بھی افضل ہے اس لیے کہ شب قدر حضور کو عطا کی گئی جب کہ شب میلاد خود آپ کے ظہور کی رات ہے اور ظاہر ہے کہ جس رات کو ذات اقدس سے شرف ملا وہ اس رات سے ضرور افضل ہوگی جو آپ کو دیے جانے کی وجہ سے شرف والی ہے اور اس میں کوئی نزاع نہیں ہے لہٰذا شب میلاد شب قدر سے افضل ہوئی۔
نیز لیلۃ القدر نزول ملائکہ کی وجہ سے مشرف ہوئی اور لیلۃ المیلاد بنفس نفیس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور مبارک سے شرف یاب ہوئی۔

(تیسری وجہ) شب قدر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر فضل و احسان ہے اور شب میلاد میں تمام موجودات عالم پر فضل و احسان ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو رحمۃ اللعالمین بنایا ہے تو آپ کی وجہ سے اللہ کی نعمتیں آسمان و زمین کی ساری مخلوق پر عام ہوگئیں۔ لہٰذا شب میلاد افضل ہے۔

یہ جو کچھ ذکر کیا گیا ہے ہمارے کثیر دلائل کا ایک حصہ ہے، اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دے اس کے لیے اس قدر کافی ہے۔