
فہرست | الطاہر شمارہ 54، ربیع الاول 1430ھ بمطابق مارچ 2009ع |
ہم چلے اعتکاف کرنےعرفان اللہ عباسی
اس رمضان المبارک میں مجھے اعتکاف کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے اپنے دوستوں کو جب اس سنسنی خیز واقعے یعنی اعتکاف کے لیے بتایا، پہلے تو وہ مذاق سمجھنے لگے مگر بعد میں جب انہیں میرے اٹل ارادے کا اندازہ ہوا تو وہ بڑے خوش بھی ہوئے تو پریشان بھی۔ انہوں نے کہا کہ یار تم 6 گھنٹے مکمل آفس میں نہیں بیٹھتے تو 9 یا 10 دن ایک جگہ پابندی سے مسجد میں کیسے بیٹھو گے؟ خوامخواہ اعتکاف توڑ کے بھاگ جاؤ گے، بہتر ہے کہ باز آجاؤ، بچے ضد نہیں کرتے۔ میں نے کہا بچے ضد نہیں کرتے تو کیا باپ دادا کرتے ہیں۔ میں اعتکاف کروں گا اور وہ بھی اللہ آباد شریف کنڈیارو میں اپنے مرشد کے آستانے پر۔ ایک دوست بولا کل کو تو بھاگ کھڑا ہوا تو بلا درگاہ والوں پہ کہ نظام کی غیر درستگی کی وجہ سے ایک عظیم انسان اعتکاف سے دستبردار ہوگیا۔ میں نے کہا کہ یار بکواس نا کرو، میری ہمت بڑھانے کے بجائے تم مجھے ڈرا رہے ہو۔ یہ سن کر ایک دوست نے کہا یار ہم تو مذاق کررہے ہیں۔ واقعی نیک کام اور وہ بھی محبوب سجن سائیں مدظلہ العالی کی درگاہ پر بہت بڑھیا۔ ویسے بھی تکلیف کوئی نہیں، پانچ وقت نماز تو ویسے پڑھتے ہیں، باقی کی عبادت آپ کے اوپر منحصر ہے کوئی مشکل نہیں۔ دوسرا بولا اور 10 دن آفس والوں کی بھی جان چھوٹے گی۔ ایک دوست جھٹ سے چھٹی کی درخواست پرنٹ کرکے لایا اور بولا حضرت اس پہ سائن ماردیجئے۔ میں نے سائن کیا اور پیپر فیکس کیا ہیڈ آفس کو۔ اب ہیڈ آفس والے پریشان۔ ہمارے ڈی جی ایم صاحب کا فون آیا کہ آپ واقعی اعتکاف میں بیٹھ رہے ہیں یا چھٹی کے لیے ڈرامہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ جناب آپ کو چھٹی دینی ہے تو دیں اور اگر آپ کو شک ہے تو نا دیں۔ وہ بولے نہیں ایسی بات نہیں مگر یہ بتاؤ بیٹھو گے کہاں پہ؟ میں نے بتایا کہ اپنے مرشد محبوب سجن سائیں کی درگاہ پہ۔ وہ بولے کہ لگتا ہے کہ واقعی کامل بزرگ ہیں جو تجھے 10 دن کے لیے نفس کی قید سے چھٹکارہ دلا رہے ہیں۔ خیر چھٹی منظور ہوگئی میں تیاریوں میں مصروف ہوگیا اور 20 ویں روزے کو ایک دوست فقیر رکن الدین طاہری صاحب کے ہمراہ اللہ آباد شریف کے لیے روانہ ہوا۔ روانگی سے پہلے بہت سے دوست عزیزوں نے دعا کے لیے کہا، میں نے کہا کہ جس کو بھی دعا کروانی ہو مجھے موبائل پہ یاد کروادے میں کردوں گا کوئی مسئلہ نہیں۔ اس کے بعد میں صاحبزادہ محمد دیدہ دل صاحب کے پاس حاضر ہوا۔ آپ مجھ پہ بڑے شفیق و مہربان ہیں۔ آپ سے اجازت مانگی اس انداز سے جیسے میں کوئی جہاد کرنے جارہا ہوں۔ آپ نے تھوڑی نصیحت فرمائی اور فرمایا کہ وہاں آپ کو انشاء اللہ مزہ آئے گا، اور جگہ بھی اعتکاف ہوتے ہیں مگر مرشد کریم کے سائے میں مزہ ہی کچھ اور ہے۔ میرے پاس سامان کافی تھا جسے وین تک اٹھانے میں مجھے بڑی تکلیف آئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ میں اتنی تکلیف (بظاہر معمولی دشواری تھی) کیوں کررہا ہوں۔ مجھے اعتکاف کرنا تھا تو پڑوس والی مسجد میں کرتا اتنی دور جانے کی وجہ؟ آخر میں اس نتیجے پہ پہنچا کہ یہ صرف اور صرف محبوب سجن سائیں سے میری محبت ہے جو مجھے وہاں لے جارہی ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ میں درگاہ شریف پہ بے اختیار جارہا تھا حالانکہ میرا نفس مجھے روک رہا تھا، دماغ میں ہزاروں سوال ابھر رہے تھے، مکر جانے کی ہزاروں وجوہات تھیں مگر میں بے اختیار سفر پہ رواں دواں۔ فقیر رکن دین طاہری نے کہا کہ ”آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں“ میں نے دل میں کہا کہ عرفان مبارک ہو، محبوب سجن سائیں کو بھی تجھ نااہل سے محبت ہے، نا ہوتی تو کیوں بلاتے۔ چلو کچھ تو آسرا ہوا کہ ہماری بھی کوئی عزت ہے۔ اب میں فقیر رکن دین سے گپیں کرنے لگا تاکہ سفر اچھا گذرے۔ فقیر رکن دین باشرع ہیں ماشاء اللہ، وہ ایک میڈیکل کمپنی میں ریپرزنٹیٹو ہیں۔ بلکل جوان اور داڑھی، دستار۔ مسواک جیب میں۔ میں تو جیب میں پین بھی نہیں رکھتا۔ فقیر رکن دین بڑا با اخلاق ہے، ان کا طریقہ گفتگو بہت اچھا لگتا ہے، خاص طور پر جب وہ مجھے سائیں کہہ کر بلاتا ہے اور میری تھوڑی بہت تعریف کرتا ہے۔ خیر ہم اللہ رسول کی باتیں کرتے رہے۔ راستے میں ہمیں رینجرز والوں نے روکا، میں نے کہا لوجی خوامخواہ کی مصیبت، یہ سامان چیک کئے بنا چھوڑیں گے نہیں اور پہلے سے میرا سامان بہت ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایک رینجرز والا آیا اور بولا یار اس ویگن کو چھوڑدو۔ میں نے کہا واہ جی واہ خدا آپ کا بھلا کرے۔ فقیر رکن دین بولا یار لگتا ہے کہ آپ بہت پہنچے ہوئے ہو۔ میں ذرا پھول گیا۔ میں نے عاجزی کے لیے بولا اوجی نہیں ایسی بات نہیں، حالانکہ اندر ہی اندر لڈو پھوٹ رہے تھے۔ مگر میرے ضمیر نے کہا فقیر ذرا سوچ تو سہی دستار تجھے ہے یا اسے؟ داڑھی تجھے یا اسے؟ اخلاق تجھے یا اسے؟ پانچ وقت نماز کا پابند وہ یا تو؟ مجھے بڑی شرم آئی کہ میں تو خوامخواہ غرور کرنے لگا یہ تو فقیر رکن دین پر مہربانی ہے۔ بہرحال ہم سفر بخیر طے کرکے اللہ آباد شریف پہنچے۔ فقیر صدیق جو لنگر اور مسجد کے انتظامات سنبھالتے ہیں، سے ملاقات ہوئی اور یہ وہ بندہ ہے جسے کبھی میں نے نہ کھاتے دیکھا نہ سوتے دیکھا صرف کام اور کام، خدمت صرف خدمت۔ میرے خیال میں یہ لٹیرا بھی ٹاپ ہوگا، جتنا اس خادم نے فیض لوٹا ہوگا وہ تو فیض دینے والے ہی جانتے ہوں گے، مگر ظاہری علامات سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ فقیر فیض سے مالامال ہے۔ فقیر نے عرض کیا کہ ہمیں بھی کوئی جگہ عنایت فرمائیں۔ فقیر صدیق بولا جی بالکل محمد جمیل صاحب نے آپ کے لیے جگہ رکھوائی ہے۔ میں بڑا خوش ہوا اور فقیر کے ساتھ چلنے لگا۔ اعتکاف کے لیے شاید دوسو سے اوپر فقیر آئے تھے۔ ہمارے لیے ایک کونے میں جگہ رکھی گئی تھی جہاں پہ دو عدد کھڑکیاں تھیں اور سارا دن سورج کی تپش ہم پہ اپنی مہربانی فرماتی تھی۔ میں قرباں جاؤں محمد جمیل صاحب کی سوچ کے اوپر، کیا مہربانی فرمائی میرے اوپر تاکہ سارا دن سو نہ سکوں۔ انہیں معلوم تھا کہ عرفان سست و کاہل ہے اور سارا دن سوتا رہتا ہے، شاید میری تربیت کے واسطے مہربانی فرمائی۔ میرا منہ ٹیڑھا دیکھ کر فقیر رکن دین بولے اچھا ہوا کہ اب تم دن کو نیند تو نہیں کرو گے۔ میں نے کہا واہ جی واہ بہت خوب، رات کو بھی عبادت کریں گے اور دن میں بھی جاگیں گے۔ وہ بولے ”جو سوتے ہیں وہ کھوتے ہیں“ میں بولا جو نہیں سوتے وہ ڈاکٹر کے پاس ہوتے ہیں۔ خیر جب عصر نماز کا ٹائم ہوا اور حضور قبلہ عالم تشریف فرما ہوئے آپ کی پہلی جھلک دیکھ کہ دل بول اٹھا اللہ اللہ اللہ۔ عجیب سی کیفیت ہوگئی جیسے پیاسے کو پانی مل گیا ہو۔ انجانی سی خوشی۔ ساری تھکن ایک ہی دیدار سے گم ہوگئی۔ عصر نماز کے بعد حضور قبلہ عالم اعتکاف والوں سے مصافحہ فرمانے لگے۔ جب میری باری آئی تو نجانے کیوں میں کانپنے لگا۔ عجیب حالت ہوگئی کبھی اپنے گندے ہاتھوں کو تکتا کبھی مرشد کریم کے مبارک ہاتھوں کو دیکھتا۔ سچ پوچھئے مجھے بڑی شرم آرہی تھی۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ جب مرید اپنے مرشد کامل کے سامنے آتا ہے تو مرید آئینے کے طرح ہر ثواب گناہ لے کر کھل جاتا ہے اور مرشد کامل کو سب معلوم ہوجاتا ہے۔ میں نے سوچا کہ میرے اتنے گناہ ہیں کہ شاید حضرت صاحب ہاتھ ملانا ہی پسند نا فرمائیں اور میری بیعزتی ہوجائے۔ میں بہت گھبرایا۔ اس دوران میرا نمبر آگیا اور میں نے کانپتے کانپتے حضرت صاحب کی طرف ہاتھ بڑھایا تو آپ نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ فرمایا۔ میں اپنے مرشد کریم کی سخاوت دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ آپ نے میرے گندے ہاتھ کو اپنے مبارک ہاتھوں سے تھاما، اس کا مطلب ہے کہ ابھی بھی سدھرنے کا چانس ہے۔ اس کے بعد آپ نے سب معتکفین کو مبارک دی اور نصیحت فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ آپ ہمارے مرشد کے دربار پہ اعتکاف کے لیے آئے ہیں سب سے پہلے تو ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور یہاں آپ آئے ہیں تو کچھ سیکھ کے جائیں اور اس کے بارے میں تفصیل سے آپ کو مولانا (نام یاد نہیں) بتائیں گے۔ جب آپ تشریف لے کے چلے گئے تو مولانا صاحب جو شاید میمن تھے کھڑے ہوگئے۔ مولانا صاحب بالکل بچے لگ رہے تھے، داڑھی بھی ہلکی سی تھی، قد بھی آپ کا چھوٹا تھا لیکن عمر میں آپ بڑے تھے۔ جب مولانا صاحب لاؤڈ اسپیکر لے کر کھڑے ہوگئے اور زور زور سے کہنے لگے اللہ اللہ فقیر سب متوجہ ہوجاؤ، میں نے کہا پتا نہیں کس کا بچہ ہے اور بجلی سے کھیل رہا ہے اور یہ فقیر صدیق کہاں گیا۔ ایسی نرمی رہی تو سب بچے حرکت کریں گے۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ لوگ آہستہ آہستہ متوجہ ہونے لگے اور بڑے ادب سے اس بچے نما مولوی کے آگے بیٹھنے لگے۔ میں نے سوچا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟ میں نے ایک پرانے فقیر سے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے تو اس فقیر نے کہا یہ بچہ نہیں بلکہ مولانا ہے۔ عالم فاضل ہے۔ میں نے کہا سبحان اللہ۔ اب وہ عالم صاحب فرمانے لگے کہ آپ کے لیے روزانہ 3 تین کلاس رکھے گئے ہیں۔ 1۔ درس قرآن، 2۔ درس حدیث، 3۔ درس مسائل۔ میں نے سوچا کہ کہ شاید یہاں پہ مدرسے کے کچھ طالب العلم ہیں انہیں آگاہ کیا جارہا ہے مگر بعد میں میری ہوائیاں اڑنے لگیں جب معلوم ہوا کہ یہ بچے نما مولوی صاحب ہمارے نفس پر ظلم ہم ہی سے کروا رہے ہیں۔ میں بہت پریشان ہوا کہ ایک اسکول سے خدا خدا کرکے جاں چھوٹی ہے یہ دوسرے سکول میں پھنس گیا۔ پھر میں نے سوچا خیر ہے پڑھیں نہ پڑھیں، یاد کریں نہ کریں، کون 211 لوگوں سے پوچھے گا۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مولانا صاحب زیادہ فرمانے لگے کہ آپ سب کے گروپ بنیں گے اور ہر روز حضرت صاحب پڑھے ہوئے درس سے سوالات پوچھیں گے۔ میں نے سوچا کہ ہے چھوٹا مگر لگتا خطرناک ہے، مکمل جال بچھایا ہوا ہے مجھے پھنسانے کا، اس سے دور ہی رہنا ٹھیک ہوگا۔ اب میں بہت پریشان ہوگیا کہ چلو اگر بندہ دھیان سے پڑھ بھی لے مگر جب حضرت صاحب سوالات پوچھیں گے تو میں کیسے بتاؤں گا۔ پہلے سے میری حالت یہ ہوگی کہ میں کانپنے لگتا ہوں اور جو یاد ہو وہ بھی نہیں بتا پاؤں گا۔ دوسرے فقیر تو ایسے مطمئن نظر آرہے تھے جیسے سب کے سب مدرسے سے فاضل ہوں۔ خیر جب میرے محبوب مرشد مربی مدظلہ العالی عشاء کی نماز کے لیے حویلی مبارک سے باہر تشریف لانے لگے تو میرا دل مچلنے لگا کہ آگے جاکر اپنے پیر کو دروازے سے مسجد میں آنے کے لیے خوش آمدید کہوں۔ عجیب سے خیال، عجیب سی خوشی، عجیب سی کیفیت۔ حضرت صاحب کو دیکھ کر دل میں فیض کا دریا ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ اتنی اسپیڈ سے دل چلنے لگا کہ مجھے ڈر ہونے لگا کہ پنکچر نہ ہوجائے۔ خیر تکبیر ہوئی اور اللہ اکبر کی آواز آئی اور نماز شروع ہوئی، میں بالکل آخری صف میں کھڑا تھا، پوری نماز میں میں بہت خوشی محسوس کررہا تھا اتنا خوش تو میں شادی پہ بھی نہ تھا مگر یہ خوشی کس بات کی تھی پتا نہیں تھا۔ لاڑکانہ میں تو پورا فرض بھی نہیں پڑھتا تھا تراویح تو دور کی بات تھی مگر عجب تھا کہ یہاں ساری نماز لذت سے پر تھی اور تراویح ختم ہوگئی پتا ہی نہیں لگا۔ جب محبوب سجن سائیں مدظلہ العالی جانے لگے تو تھوڑا غم سا ہونے لگا کہ رات کیسے کٹے گی اور صبح کب ہوگی اور آپ کا دیدار ہو۔ جب ہم اپنے بسترے پہ آئے تو مجھے تھوڑی بے چینی سی تھی، میں کچھ سوچ رہا تھا کہ فقیر رکن دین صاحب نے کہاکہ گھر میں تو گادیلے ہوں اور یہاں سخت فرش ہے نیند میں دشواری تو ہوگی آپ کو۔ میں نے کہا یار دن گذر جائیں گے پتا بھی نہیں لگے گا اور میں سوگیا۔ یقین کیجئے اتنی سکون کی نیند تو اے سی A.C اور پلنگ پر بھی نہیں آئی تھی۔ مجھے گہری نیند آگئی اور مہربانی یہ ہوئی کہ اپنے محبوب مرش سجن سائیں مدظلہ العالی کی زیارت ساری نیند میں ہوتی رہی۔ (جاری ہے)
|