الطاہر

الطاہر شمارہ نمبر 44
ربیع الاول ۱۴۲۸ھ بمطابق اپریل ۲۰۰۷ع

اردو مین پیج

حضرت خواجہ پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ

بیدار مورائی

 

نسب نامہ: حضرت خواجہ عماد الدین قدس سرہ العزیز جو حضرت مخدوم ”چنڑ پیر“ کے لقب سے مشہور ہیں، ان کی خانقاہ ریاست بہاولپور سے 12 کوس کے فاصلے پر ریگستان کے علاقے کے اندر ریت کے ایک ٹیلہ پر واقع ہے۔ حضرت مخدوم چنڑ پیر رحمۃ اللہ علیہ کو اولاد نہیں تھی اس لیے آپ کے وصال کے بعد آپ کے بھائی حضرت خواجہ محمد اویس رحمۃ اللہ علیہ کو جانشین مقرر کیا گیا۔ سلطان العارفین سراج السالکین حضرت خواجہ محمد عبدالغفار رحمۃ اللہ علیہ کا نسب نامہ حضرت خواجہ محمد اویس رحمۃ اللہ علیہ سے 17 صدی میں جاکے ملتا ہے۔

علمی شوق: حضرت خواجہ پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کا پورا خاندان علم سے شوق رکھتا تھا۔ سب کے سب باعمل، شریعت کے پابند اور حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے پیروکار تھے۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا یار محمد رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد جب دینی کتب تقسیم کی گئیں تو آپ کے چاروں فرزندوں کو مدرسہ جتنی کتب ملیں جن میں تفسیر و حدیث کے ساتھ ساتھ فتویٰ کے مشہور کتاب ”شامی اور عالمگیری“ بھی شامل تھیں۔ حضرت مولانا یار محمد رحمۃ اللہ علیہ کو چار فرزند تھے مولانا محمد اشرف صاحب، مولانا عبدالرحمان صاحب، حضرت خواجہ محمد عبدالغفار صاحب، حضرت مولانا عبدالستار صاحب علیہم الرحمہ۔

ولادت باسعادت اور ابتدائی تعلیم: حضرت خواجہ پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ ضلع ملتان تحصیل شجاع آباد نزدیک جلال پور پیر والہ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد حضرت مولانا یار محمد رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ بعد میں عربی تعلیم کے لیے اوچ شریف میں حضرت مولانا امام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ حضرت خواجہ پیر فضل علی قریشی رحمۃ اللہ علیہ کے معتقد تھے۔ کچھ کتابیں آپ نے اپنے بڑے بھائی مولانا محمد اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھی پڑھیں۔ آخری کتب حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مولانا محمد عاقل رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پڑھیں۔ حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ”یہ عاجز جب علم سے فارغ ہوا تو والد صاحب نے مجھے قرات کے لیے بھیجا۔ میرے استاد محترم قاری مطیع اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حرم پاک کے اندر سات سال تک قرات کا درس دیتے رہے۔ بڑی محنت اور کوشش کے بعد بھی استاد صاحب نے ایسے فرمایا کہ قرات کماحقہ چھوٹی عمر والا ہی پڑھ سکتا ہے کیونکہ اس وقت حروف کی ادائیگی میں آسانی ہوتی ہے۔

سلسلہ عالیہ قادریہ: حضرت خواجہ پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اس فقیر کا آبائی طریقہ قادری تھا۔ یہ عاجز بھی شروع میں حضرت حافظ فتح محمد صاحب جلال پور پیر والا کا دست بیعت ہوا تھا۔ آپ عالم باعمل اور واعظ پر اثر تھے۔ آپ سخی، متوکل اور بے ریا انسان تھے۔ آپ مستجاب الدعوات تھے اور آپ کی دعا میں بڑی تاثیر ہوتی تھی۔ حضرت حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں میری توجہ علم کے حصول کے طرف زیادہ تھی۔ آپ کی وفات کے بعد بہت پریشانی ہوئی اور اس نعمت کے حصول کے لیے کافی کوشش کی۔ پنجاب کے اندر کافی گادیاں تھیں اور ظاہر میں تو بڑا رعب تاب اور دبدبہ تھا لیکن جس بات کے لیے میں ڈھونڈ رہا تھا کہ ایسا پیر ملے جس کے پاس شریعت و طریقت دونوں موجود ہوں وہ تلاش بسیار کے باوجود کہیں حاصل نہیں ہوئی۔ افسوس کہ ایسا پیر کہیں بھی نظر نہیں آیا۔

سلسلہ عالیہ نقشبندیہ: حضور پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میں نے حضرت حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں دعا کے لیے عرض کی تھی، آپ نے فرمایا تھا کہ میں تمہارے لیے وہ دعا مانگوں گا جس کا تجھے خود پتا چل جائے گا۔ یہ اس دعا کا اثر ہے کہ جس نے مجھے ولی کامل حضرت خواجہ پیر فضل علی قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں پہنچایا۔ آپ نے وہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس فقیر نے فجر نماز آرائیں گاؤں میں پڑھی، اس مسجد کے پیش امام سے راستے کا پتہ پوچھ کر سیدھا حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد شریف کی طرف گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آپ اکیلے مسجد کے اندر مصلے مبارک پر تشریف فرما ہیں۔ آپ اس طرح دیکھ رہے تھے گویا کسی کے انتظار میں ہوں۔ یہ فقیر آپ کی قدم بوسی کرکے آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، آپ میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔ اس کے بعد تھوڑی بہت گفتگو کرکے آپ اندر حویلی مبارک کی طرف چلے گئے۔ کچھ دیر کے بعد آپ اپنے ہاتھوں سے روٹی لے کے آئے۔ حضرت صاحب ظہر نماز کے وقت پھر تشریف فرما ہوئے، نماز با جماعت ہوئی، اس کے بعد آپ نے اس عاجز کو بیعت سے سرفراز کرکے قلبی ذکر کی تلقین فرمائی۔

جذبہ اور جنون کی عجیب کیفیت: آپ فرماتے تھے کہ اس عاجز کا ایسا حال ہوگیا کہ قلب کے جوش کی وجہ سے سلطان الاذکار بھی جاری ہوگیا اور جسم پر کپکپی طاری ہوگئی۔ ایسے معلوم ہورہا تھا کہ جیسے میں آگ کے جلتے ہوئے تنور میں پڑا ہوا ہوں اور میرا سر بہت بھاری ہوتا جارہا تھا، ایسے سمجھ میں آرہا تھا کہ میرا دماغ پھٹ جائے گا، اتنا تو استغراق طاری ہوگیا کہ مراقبہ کا ارادہ ہوتے ہی میں گم ہوجاتا تھا۔ اپنے آپ کو گم دیکھ کر خوف محسوس ہوتا تھا کہ کوئی مرض تو لاحق نہیں ہوگیا ہے۔ پھر کبھی کبھی ایسے محسوس ہوتا تھا کہ میری دل وجود کو چیر کے آسمان کی طرف اڑ کے چل گئی ہے۔ آنکھوں میں سے جیسے آگ کی چنگاریاں نکلتی تھیں۔ حالت یہ ہوگئی کہ نہ کچھ کلام کرسکتا تھا اور نہ آنکھوں کو کوئی نیند نصیب تھی۔ حضور پیر مٹھا فرماتے تھے کہ شروع شروع میں مجھے جذبہ بہت ہوتا تھا اور یہ میری حالت دو تین سال چلی۔ جنون اتنا غالب ہوتا تھا کہ کبھی کبھی سر سے دستار اتار کر زمین پر پھینک کر ادھر ادھر دوڑتا تھا پاؤں ننگے ہوتے تھے اور ازار کے علاوہ دوسرا کوئی کپڑا پہن نہیں سکتا تھا۔ الحمدللہ ایسی حالت میں بھی ننگے پن کا ہوش رہتا تھا اور نماز کے وقت میں نماز پڑھتا تھا۔ میری حالت دیکھ کر حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ مولوی صاحب آپ اپنے کپڑے دھوبی کو دھونے کے لیے دے کر آئے ہوکیا؟

درگاہ عاشق آباد: یہ پنجاب کے اندر پہلا تبلیغی اور روحانی مرکز تھا۔ حضور قبلہ عالم سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں سندھ سے کثیر جماعت عاشق آباد پہنچی۔ حضور سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے خود بھی فقیروں کے ساتھ مٹی اٹھائی اور اپنے پیر کے شان میں اپنی بنائی ہوئی منقبتیں پڑھتے تھے۔ غزلوں کے دوران فقیروں میں جوش و جذبہ، ذکر کی مٹھاس، ذوق و شوق پیدا ہوتا تھا۔ فقیر وجد و مستی میں کام بھی زیادہ کرتے تھے اور کام کو جلدی جلدی کرتے تھے۔

رحمت پور شریف: یہ سندھ کے اندر لاڑکانہ شہر میں حضور پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کا آخری مرکز اور آخری آرام گاہ ہے۔

تبلیغی مرکز اور حسین خواب: حضرت خواجہ فضل علی قریشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اگر مرنے کے بعد اگر دوبارہ زندگی ملی اور اللہ تعالیٰ پوچھے کہ اے قریشی بتاؤ کہ دنیا کے اندر کونسا کام کروگے، تو میں عرض کروں گا کہ تمہارے دین کی تبلیغ کروں گا۔ حضرت خواجہ پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ جو اپنے پیر و مرشد کے عاشق صادق تھے پروانے تھے انہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے پیر کے خیال کے مطابق تبلیغ میں گذار دی۔