پچھلا صفحہ

[ فہرست ]

جلوہ گاہِ دوست

اگلا صفحہ

 

رابطہ شیخ

 

یار رفت ازچشم لیکن روز و شب در خاطر است
گر بصورت غائب است اما بمعنیٰ حاضر است

ترجمہ: میرا محبوب میری نظروں سے تو دور چلا گیا ہے لیکن رات دن میرے دل میں موجود ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر وہ غائب ہے لیکن حقیقت میں وہ حاضر ہی ہے۔

رابطہ کا لفظ ربط سے مشتق ہے جسکی معنیٰ ہے کسی چیز کو مضبوط باندھنا۔ اس لئے عربی میں گلدستہ اور پیکٹ کو ربط کہتے ہیں۔ تصوف و طریقت میں رابطہ شیخ کامطلب یہ ہے کہ مرید اپنے شیخ سے مضبوط و مستحکم نسبت و تعلق قائم کرے اور اس جیسے اخلاق و اعمال اپنانے کے لئے اسکی صحبت و خدمت اختیار کرے اور جب شیخ موجود ہو تو ادب و عقیدت سے اس کے دونوں ابروؤں کے درمیان نظر رکھے، کسی اور طرف توجہ نہ کرے، اور جس وقت شیخ موجود نہ ہو تو اس کی صورت کو پیشِ نظر تصور کرے۔ جس طرح آدمی گھر سے باہر ہوتا ہے تو دانستہ یا نادانستہ اپنے گھر میں بسنے والے افراد اور قیمتی مال و متاع کا تصور کرلیتا ہے کہ فلاں آدمی فلاں جگہ پر ہوگا اور فلاں چیز کمرے کے فلاں کونے یا الماری میں ہوگی، اسی طرح اپنے شیخ کو مسجد و محفل میں یا عبادتِ الٰہی میں مصروف تصورکرے۔ چونکہ اولیاء اللہ کے تمام اعمال و افعال اور اقوال احکامِ الٰہی کے عین مطابق ہوتے ہیں، مضبوط و مستحکم نسبت رکھنے والا مرید بھی ”اِنَّ الْمُحِبَّ لِمَن یُّحِبُ مُطِیع“۔ یعنی محبت کرنے والا اپنے محبوب کی اطاعت کرتا ہے، کے مطابق وہی اخلاق و اعمال اپنانے کی کوشش کرتا ہے، جو اسکے شیخ کے ہوتے ہیں۔

 

تصور شیخ کا قرآن مجید سے ثبوت

سورۃ یوسف میں ارشادِ خداوندی ہے۔ وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہِ وَہَمَّ بِہَا لَوْلا أَن رَّأَی بُرْہَانَ رَبِّہِ۝
ترجمہ: اگر حضرت یوسف علیٰ نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے پروردگار کے برہان کو نہ دیکھتے تو سیدہ زلیخا کی طرف متوجہ ہوجاتے۔

اس آیہ کریمہ میں وارد لفظ برہان کے متعلق مفسرین کرام کی رائے یہ ہے کہ اس سے حضرت یعقوب علیہ السلام مراد ہیں، جن کی شکل مبارک اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کو نظر آئی اور آپ سے کلام بھی فرمایا تھا۔ حالانکہ اس وقت باپ بیٹے ایک دوسرے سے بظاہر کوسوں دور تھے، لیکن باہمی قلبی رابطہ انتہائی مضبوط و مستحکم تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی قرآنی آیات میں غور و فکر کرنے کا بھی امر فرمایا ہے۔ دیکھئے سورۃ بقرہ آیت نمبر ۲۶، سورہ غاشیہ آیت نمبر ۱۷ اور سورۃ نحل آیت نمبر ۸۔ ظاہر ہے جب آدمی ان آیات مبارکہ کی تلاوت کریگا اور ان کے معانی و مطالب پر غور کریگا تو کسی نہ کسی صورت میں ان افراد و اشیاء کا تصور تلاوت کرنے والے کے ذہن و خیال میں آئیگا اور وہ اس کی نصیحت عبرت اور تقویت ایمان کا باعث بھی بنے گا، اسی طرح شیخ کامل کا غائبانہ تصور جسے صوفیاء کرام رابطہ کہتے ہیں سالک کی ہدایت و اصلاح کا باعث بنتا ہے۔

رابطہ شیخ کا ثبوت حدیث شریف سے

حضرت مولانا عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب حلیۃ الاولیاء کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ مبارک نقل کیے ہیں: ”وَاللّٰہِ کَاَنِّیْ اَرَیٰ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلّی اللہ علیہ وسلم فِیْ غزْوَۃِ تَبُوْکَ“ یعنی خدا کی قسم گویا کہ میں غزوہ تبوک کے موقعہ پر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں۔ حضرت مولانا عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث شریف ذکر کرنے کے بعد وضاحت سے تحریر فرمایا۔

فَبِھٰذَا الْحَدِیثِ وَاَمْثَالِہِ الْوَارِدَۃِ فِی الصِّحَاحِ اسْتَنْبَطُوْا جَوَازَ تَصَوُّرِ الشَّیْخِ وَلَہ وَجْہٌ لَٰکِنَّہٗ لَایَفْھَمُ الْمُنَاظِرُ

(ھدایۃ الانسان صفحہ ۱۰۲)

اس حدیث شریف اور اس جیسی دوسری احادیث جو کہ صحاح ستہ یعنی صحیح بخاری شریف، صحیح مسلم شریف، جامع ترمذی، نسائی شریف و دیگر کتب حدیث میں موجود ہیں، سے صوفیاء کرام نے تصور شیخ کو جائز ثابت کیا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے لیکن اس بات کو مناظرے کرنے والے (جن کو تنقید برائے مخالفت کی عادت ہے) نہیں سمجھ پائیں گے۔

رابطہ شیخ کے بارے میں حضرت امام ربانی مجدد و منور الف ثانی قدس سرہ فرماتے ہیں: سالک کے لئے سب سے زیادہ قریب راستہ رابطہ شیخ ہے۔

بالفاظہ بدانند کہ حصول رابطۂ شیخ مرید را بے تکلف و بے تعمل علامتِ تام است درمیان پیر و مرید کہ سبب افادہ و استفادہ است و ہیچ طریقے اقرب بوصول از طریقِ رابطہ نیست، تاکدام دولتمند را بآں سعادت مستسعد سازند۔

(مکتوب نمبر ۱۸۷ دفتر اول حصہ سوم)

جاننا چاہئے کہ بلاتکلف و محنت رابطۂ شیخ میسر آجائے تو یہ پیر و مرید کے مابین مکمل مناسبت کی علامت ہے اور یہی فائدہ حاصل کرنے اور فائدہ پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ وہ خوش قسمت آدمی ہے جسے یہ سعادت نصیب ہو۔

اسی موضوع پر مشہور بزرگ عارف باللہ حضرت شیخ شرف الدین احمد بن یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں۔

مرید را باید کہ ربطِ قلب با پیر بود و معنیٰ ربطِ قلب ایں است کہ بداند کہ مرا بخدائے تعالیٰ نرساند مگر پیرِ من ”اَلشَّیْخُ فِیْ قَوْمِہٖ کَالنَّبِیِّ فِیْ اُمَّتِہٖ“ اشارہ در حقِ ایشاں است و ہرچہ پیر بفرماید ازاں تجاوز نکند اگرچہ ہزاراں ہم عصر بآنجا باشند و درآں وقت دیگراں ہم پیراں و مرشد آں باشند و گویند کہ اگر مرید بداند کہ بہتر از پیر من دیگرے ہست درکار مریدی درست نباید و غرض او حاصل نہ شود۔

(لطائف المعانی ملفوظات حضرت یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ صفحہ ۴)

یعنی مرید کو چاہیے کہ اپنے پیر سے رابطہ قلب قائم کرلے۔ رابطہ قلب کا مطلب یہ ہے کہ مرید یہ سمجھے کہ مجھے میرا پیر ہی خدا تعالیٰ سے ملائیگا کوئی دوسرا نہیں۔ پیر اپنے مریدین کو اس طرح فائدہ اور فیض پہنچاتا ہے جس طرح نبی اپنی امت کو۔ ”الشیخ فی قومہ کالنبی فی امتہ“ میں اسی جانب اشارہ ہے۔ مرید کو چاہیے کہ جو کچھ پیر حکم فرمائے اس پر عمل کرے، اس سے آگے نہ بڑھے، اگرچہ انکے ہزاروں ہم عصر دوسرے پیر و مرشد بھی موجود ہوں۔ نیز مشائخ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرید یہ خیال کرے کہ میرے پیر سے بڑھ کر اور کوئی بزرگ ہے تو اس کی مریدی ابھی ناتما م ہے اور اسے پورا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔