فہرست

سیرت و سوانح حیات حضرت پیر فضل علی قریشی قدس سرہ


یادگار ایام

(تحریر جناب حاجی ابوہریرہ عرف الہ آندو صاحب رحمۃ اللہ علیہ سکنہ نزد خانواہن)

 

نوٹ: سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے چار عظیم مشائخ (۱) حضرت پیر قریشی قدس سرہ (۲) حضرت پیر مٹھا قدس سرہ (۳) حضرت پیر سوہنا سائیں قدس سرہ اور (۴) حضرت پیر سجن سائیں دامت برکاتہ کے صحبت یافتہ نیک مرد، جن کا حال ہی میں ۶۹ برس کر عمر میں انتقال ہوا ہے (انا للہ و انا الیہ راجعون)، حاجی صاحب مرحوم و مغفور نے یہ مفید مضمون سیدی حضرت سجن سائیں مدظلہ کے ایماء پر چند سال قبل تحریر کرکے پیش کیا۔

۱۹۳۳ یا ۱۹۳۴ عیسوی کا زمانہ تھا۔ یہ عاجز گوٹھ حیات سہتہ (پھلی) میں سکول ماسٹر تھا کہ معلوم ہوا کہ مسکین پور شریف پنجاب سے حضرت پیر فضل علی نامی ایک بزرگ سید غلام دستگیر شاہ صاحب کی دعوت پر ہالانی میں تشریف فرما ہوئے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ بستی کے فقیر شیر محمد اور میاں غلام جعفر سہتہ دونوں ہالانی گئے، حضور کی زیارت و بیعت سے مشرف ہوئے، ساتھ ہی دعوت دیکر آپ کو اپنے گاؤں پھلی لے آئے۔ حضور کے قیام کا انتظام سکول میں کیا گیا تھا، یوں مجھے بیٹھے بٹھائے حضرت پیر قریشی نور اللہ مرقدہ کی قدم بوسی اور مریدی کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت میری عمر کوئی ۲۳ یا ۲۴ برس تھی۔ بیعت کے وقت آپ ہاتھ میں ہاتھ ملاکر پہلے تجدید ایمان کی دعائیں (آمنت باللہ۔۔۔) پڑھاتے تھے، اس کے بعد بائیں پسلیوں کی جانب قلب پر انگلی مبارک رکھ کر ذکر کی تلقین فرماتے تھے۔ نیز ہر ایک فقیر کو روزانہ، دو تسبیح کلمہ طیبہ، دو تسبیح درود شریف اور دو تسبیح استغفار پڑھنے کا حکم فرماتے تھے۔ مزید کسی ورد، وظیفہ کی تلقین نہیں کرتے تھے، بلکہ اگر کوئی شخص یہ عرض کرتا کہ میں پہلے سے فلاں فلاں اوراد و وظائف پڑھتا ہوں، تو آپ اسے ان اوراد سے منع فرماتے اور قلبی ذکر پر زیادہ زور دیتے تھے۔ نیز قلبی ذکر میں پختگی پیدا کرنے کے لئے روزانہ نماز فجر کے بعد ذکر کا حلقہ و مراقبہ کراتے تھے، جبکہ مراقبہ سے پہلے گیارہ مرتبہ سورۃ قریش، گیارہ مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھنے کا معمول تھا۔ ایصال ثواب کی دعا کے بعد سر کھلا رکھ کر، تقریبا نصف گھنٹہ متوجہ الی اللہ ہوکر مراقبہ کیا جاتا تھا۔ مراقبہ کے آخر میں آپ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے اور مراقبہ پورا ہونے پر سر پر عمامہ رکھ کر دعا فرماتے تھے۔

حضرت پیر قریشی قدس سرہ، سنت رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کی پابندی کا حکم فرماتے تھے۔ تمام فقیروں کی جیبوں میں کروے پیلو کے مسواک ہوتے تھے۔ بعض فقیر چادر کے پلو میں مسواک باندھ لیا کرتے تھے۔ حلال و پاکیزہ طعام کھانے کا امر فرماتے تھے۔ اس زمانہ میں گنّا سندھ میں کاشت نہیں ہوتا تھا، کھانے کے لئے گڑ پنجاب سے لایا جاتا تھا۔ شاید آپ نے گڑ بناتے وقت کسی قسم کی بے احتیاطی دیکھی تھی کہ گڑ کھانے سے منع فرماتے تھے۔ آپ کی صحبت کا اثر تھا کہ تمام فقراء بڑی خوشی و محبت سے ان امور کی پابندی کیا کرتے تھے۔

حضرت پیر قریشی قدس سرہ تصور شیخ کے لئے تاکید فرماتے تھے۔ نیز فرماتے تھے کہ جو آدمی میرے پاس ذکر سیکھنے کے لئے آئے، چاہئے کہ اپنے علم و عقل کو آزمانا ترک کردے (کسی قسم کا اعتراض نہ کرے) خالص و پختہ عقیدہ کے بغیر طریقت کے طالب کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔

مون سي ڏٺا ماءُ، جنين ڏٺو پرينءَ کي،
ڪري نه سگهان ڪاءِ، تنين سندي ڳالهڙي.

(میں نے اس محبوب کو دیکھا ہے جس نے محبوب حقیقی کو دیکھا ہے، میں ان کی کیا تعریف کروں اور کون سے اوصاف بیان کروں)

دوسری بار جب حضرت قریشی علیہ الرحمہ ہالانی تشریف فرما ہوئے تو فقیر شیر محمد، میاں غلام جعفر اور فقیر محمد سچل سہتہ کے ہمراہ یہ عاجز بھی حاضر خدمت ہوا۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ کے سندھ میں تبلیغ کے لئے مقرر خلیفہ و نائب حضرت خواجہ محمد عبدالغفار رحمۃ اللہ علیہ (جو آگے چل کر حضرت پیر مٹھا کے ہر دلعزیز لقب سے مشہور ہوئے) بھی ساتھ تھے۔ رات کو ہم نے ان کے لئے بھی چارپائی پر بستر بچھایا تھا، لیکن پیر کے ادب کے پیش نظر آپ فرش زمین پر سوئے، چاپائی پر نہیں لیٹے۔ نماز فجر کے بعد آپ نے ہمیں دوبارہ بیعت فرمایا اور رخصت ہوتے وقت ہر ایک کو جدا جدا دعائیں دیں۔ میرے ساتھی عمر رسیدہ تھے اور میں نوجوان تھا، آپ نے میری پیٹھ پر ہاتھ مبارک رکھ کر فرمایا، اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نیک صالح بنے گا۔ آپ نماز فجر قدرے تاخیر سے ادا فرماتے تھے۔

حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ سادی مزاج ولی تھے۔ آپ کے نشست و برخواست و دیگر تمام معاملات میں سادگی نمایاں تھی۔ جسم مبارک پر کھدّر کا موٹا لباس ہوتا تھا۔ اگر کوئی فقیر تعریف کرتا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ خلاف شرع رسوم و رواج سے دو رہتے تھے۔ اس زمانہ میں یہ رواج عام تھا کہ جب کسی کے گھر لڑکا پیدا ہوتا تھا تو اس کے بال دادا پیر کے مزار پر جاکر کٹواتے تھے، خواہ وہاں جانے میں پانچ چھ سال کی تاخیر ہوجاتی۔ بال زیادہ بڑے ہوجاتے کی صورت میں چاروں طرف سے بال کاٹ کر سر کے درمیان میں جاد کے نام سے ایک چھگا رہنے دیا جاتا تھا۔ خود ہمارے خاندان کا یہ حال تھا کہ حضرت پیر عیسیٰ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ (نزد چاچک بستی تحصیل کنڈیارو) کے دربار پر جاکر بچوں کے بال کاٹتے تھے۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ اس قسم کی بدعات کی مذمت فرماتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ کسی فقیر کے یہاں آپ کی دعوت تھی۔ آپ تشریف فرما ہوئے تو دیکھا کہ صاحب دعوت کے لڑکے کے سر پر جاد موجود ہے، جسے دیکھ کر ناپسندیدگی کے انداز میں ارشاد فرمایا یہ کیا ہے؟ فقیر نے قدرے شرمساری کے انداز میں عرض کیا۔ حضور بچے کی نانی کے کہنے پر یہ بال ابھی تک نہیں کٹوائے۔ اس کے جواب پر آپ کو سخت غصہ آیا اور جماعت سے مخاطب ہوکر فرمایا۔ فقیرو یہاں پر نانی کا مذہب چلتا ہے، ہم یہاں نہیں رہ سکتے، چنانچہ اسی وقت فقیروں کی کثیر جماعت کے ہمراہ واپس تشریف لے گئے۔