فہرست
سیرت ولی کامل (حصہ اول)

اتباع سنت رسول صلّی اللہ علیہ وسلم

اتباع سنت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم قرآن و حدیث کی روشنی میں ہر ایک مسلمان کے لئے انتہائی ضروری و لازمی ہے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے اتباع سنت کرنے والے کو سو شہید کے برابر اجر پانے والا قرار دیا۔ یہی نہیں بلکہ احیاء سنت کو اپنی محبت کی علامت قرار دے کر بروز قیامت اپنے ساتھ جنت میں رہنے کی بشارت عطا فرمائی۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں ”جس نے میری سنت کو زندہ کیا (اس پر عمل کیا) اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔“ (عن انس کنزالعمال صہ ۱۸۴ جلد اول)

دوسری طرف سنت سنیہ سے اعراض کرنے والے کے متعلق فرمایا ”جو میری سنت سے منہ پھیرتا ہے وہ مجھ سے نہیں (یعنی میرا اس سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے)“ (حوالہ مذکور)
آیت کریمہ: ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی الخ آل عمران، کے تحت جلیل القدر مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ جو محبت رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کرے اور آپ کی بابرکت سنتوں پر عمل نہ کرے وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔ چنانچہ مفسر و محدث امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی معروف تفسیر ابن کثیر میں لکھتے ہیں:

(ابن کثیر صلّی اللہ علیہ وسلم ۳۵۸ جلد اول) ”اس مقام پر اس آیت کریمہ سے یہ حکم ثابت ہوا کہ جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرے اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر کاربند نہ ہو وہ حقیقۃ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے قول و فعل میں شریعت محمدیہ اور دین نبویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی تابعداری کرے، چنانچہ صحیح بخاری شریف میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ جس نے ایسا عمل کیا، جس کے بارے میں ہمارا حکم نہ ہو (خلاف حکم عمل کیا) وہ مردود ہے“۔

الحمد للہ سیدی و مرشدی سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نے بذات خود تو امکانی حد تک رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی جمیع سنتوں پر عمل کیا، اور اپنے متعلقین و متوسلین کو بھی عشق رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنتوں پر عمل کرنے کا اس قدر گرویدہ بنا دیا کہ سفر میں حضر میں، مسجد، مدرسہ بلکہ یونیورسٹیوں اور بڑی بڑی آفیسوں میں بھی آپ کے مریدین کے چہرہ پر ریش مبارک، جیب میں مسواک اور سر پر سبز یا سفید عمامہ اس کے نیچے ٹوپی نظر آتی تھی، چنانچہ ایام حج میں ایک فقیر نے مذکورہ علامات کی بناء پر کئی ایک حاجیوں سے پوچھا، آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ اور کن بزرگوں سے نسبت ہے؟ تو وہ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے مرید نکلے۔
جس قدر آپ کی جماعت اتباع سنت میں پیش پیش ہے، اسی قدر خلاف شرع بدعات رسوم و رواج سے متنفر ہے۔ آپ سر عام فرماتے تھے کہ جو نماز نہ پڑھے، ڈاڑھی مونڈھے، شادی بیاہ میں خلاف شرع رسم و رواج کا اہتمام کرے یا اس میں شریک ہو، اس سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ مشت از نمونہ خروار آئندہ چند صفحات میں چند ایک واقعات درج کئے جاتے ہیں، جو قابل توجہ بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔ کھنڈو گوٹھ کراچی کے محترم محمد ایوب چنہ صاحب نے بتایا کہ آخری چند برسوں میں جب حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ تبلیغی یا علاج کے سلسلے میں کراچی جاتے تھے تو محترم عرفان صاحب کی خواہش اور احباب کے مشورہ سے اس کی کوٹھی پر قیام فرماتے تھے۔ چونکہ عرفان صاحب اخلاص و محبت والے تو تھے، لیکن داڑھی منڈواتے تھے۔ حضور کو سنت رسول صلّی اللہ علیہ وسلم سے لاپرواہی کی وجہ سے عرفان صاحب کے مکان پر ٹھہرنے سے سخت کوفت ہوتی تھی۔ بادل ناخواستہ دو مرتبہ اس کی کوٹھی میں ٹھہرے۔ دوسری مرتبہ آپ کے اللہ آباد شریف پہنچنے کے بعد جب میں اللہ آباد شریف حاضر ہوا، تو حضور نے تمام احباب کی خیریت دریافت فرمائی۔ جب میں اجازت لے کر واپس کراچی آ رہا تھا تو مجھے تنہائی میں بلاکر فرمایا: عرفان صاحب محبت والا آدمی ہے، ہماری رہائش کا بھی اس کے پاس انتظام ہوتا ہے، اس کو ہماری طرف سے یہ پیغام دینا کہ آپ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارک داڑھی رکھیں، حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو راضی کریں، تو ہم انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی آپ ہی کے مکان پر ٹھہریں گے۔ اگر آپ داڑھی نہیں رکھیں گے تو آئندہ کبھی آپ کے مکان میں نہیں ٹھہریں گے۔ الغرض جب میں کراچی پہنچا اور حضور کا پیغام عرفان صاحب کو سنایا تو جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کے مطابق اسی دن سے عرفان صاحب نے داڑھی رکھ لی۔ اور حضور نے بھی وعدہ وفائی کی، جب بھی کھنڈو گوٹھ کراچی کا پروگرام ہوتا عرفان صاحب کے یہاں رہائش پذیر ہوتے تھے، اور اب بھی جب کبھی حضرت قبلہ صاحبزادہ صاحب مدظلہ العالی کھنڈو گوٹھ تشریف لے جاتے ہیں تو عرفان صاحب ہی کے پاس قیام فرما ہوتے ہیں۔

حضور جامشورو ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ مولوی محمد بلال صاحب عیادت کے لئے آئے، ان کے سر پر رومال دیکھ کر فرمایا: دستار باندھا کرو۔ انہوں نے ادب سے عرض کی، حضور یہ بڑا رومال ہے، اس لئے ٹوپی کے اوپر دستار کی جگہ باندھ لیا ہے (اس کے خیال میں دستار کی جگہ یہی کافی تھا) فوراً آپ نے مجھ سے پوچھا حاجی صاحب یہ رومال ہے یا دستار؟ میں نے کہا حضور عرف میں تو اسے رومال کہتے ہیں۔ پھر مولوی صاحب مذکور کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا عرف میں جسے پگڑی کہتے ہیں وہی سنت رسول ہے، رومال خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو مگر رومال ہی ہے پگڑی نہیں۔ (خلیفہ حاجی محمد حسین صاحب)

خواب میں اتباع سنت کا حکم: مولانا حاجی محمد آدم نے بتایا کہ میں ہمیشہ مونچھیں مختصر ہی رکھتا ہوں، مگر ایک مرتبہ غفلت و سستی کی وجہ سے مونچھیں کافی بڑھ گئیں، خواب میں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ (اس وقت حال حیات تھے) کی زیارت نصیب ہوئی، مجھے فرمایا: آپ کی مونچھیں اتنی بڑھ گئی ہیں پھر بھی نہیں کاٹتے، اس دنیاوی حیاتی پر کیا بھروسہ، اتنے میں بیدار ہوگیا اور مونچھیں کاٹ کر سنت کے مطابق مختصر کرلیں۔ اسی طرح مولانا مفتی کریم بخش صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں درگاہ اللہ آباد شریف حاضر ہوا، صبح کے وقت حسب دستور حضور تفریح کے لئے قریبی باغ کی طرف تشریف لے جارہے تھے، مجھے دیکھ کر بلایا اور فرمایا مولوی صاحب! دیکھو یہ طالبعلم ہیں، کسی کے سر پر رومال ہے کسی کے سر پر ٹوپی، اتباع سنت کا لحاظ نہیں رکھتے کہ پگڑی باندھیں؟ ہم سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا کہ ہمارے مدرسہ کے طالبعلم ہوں اور سر پر پگڑی نہ ہو، آپ ان کے بلکہ ان کے استادوں کے استاد ہیں، ان کو نصیحت کریں کہ آئندہ پگڑی سے رہا کریں۔
سزا اور تنبیہہ: ایک مرتبہ جیسے ہی آپ اپنے قریبی باغ سے سیر و تفریح کرکے واپس گھر تشریف لے جا رہے تھے آپ کی نظر ایک طالب علم پر پڑی، جو مسجد شریف کے قریب ہی ہاتھ سے اپنی داڑھی چھپا رہا تھا، آپ چپکے سے اس کے قریب پہنچے، وہ بے فکر کھڑا ہی تھا، آپ نے زور زور سے چند بار عصا مبارک اسے مارا، وہ دیکھتے ہی شرم کے مارے جھک گیا اور روکر معافی طلب کرنے لگا، مگر آپ نے اس کی ایک نہ سنی، فرمایا بے شرم تو مدرسہ کا طالبعلم ہے، تو پڑھ کر عالم دین بنے گا۔ جسے سنت رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی قدر نہ ہو اس کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں، تیرے یہاں رہنے کی ضرورت نہیں، جہاں چاہے چلا جا۔ یہ کہہ کر آپ چلے گئے، مگر بعد میں اس نے سچی ندامت و توبہ کی اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کا وعدہ کیا، تب آپ نے معافی دے دی اور مدرسہ میں پڑھنے کی اجازت دی، ساتھ ساتھ سخت تنبیہہ بھی فرمائی۔

اَلہٰ کہنے پر تنبیہہ: بعض لوگ جہالت یا غفلت کی وجہ سے لفظ ”اللہ“ کا صحیح تلفظ نہیں کرتے بلکہ ہمزہ کو زیر کی جانب امالہ دے کر اس انداز سے اسم شریف کا تلفظ کرتے ہیں، کہ سننے والے کو اَلہٰ معلوم ہوتا ہے۔ اس قسم کی کوتاہی (اس جلالت کے صحیح تلفظ نہ ہونے) سے آپ کو سخت کوفت ہوتی تھی۔ اگر کسی سے اس طرح سنتے تو سخت تنبیہہ فرماتے تھے ایک مرتبہ محمد عمر نامی بوزدار لڑکے نے اسی طرح الٰہ کہا، باوجودیکہ وہ صغیر لڑکا تھا، مگر چونکہ سمجھدار تھا، آپ نے اسے بلا کر سخت تنبیہہ کی اور تمام جماعت کو نصیحت کی کہ اسم جلالت ”اللہ“ محبت، ادب اور پوری طرح صحت تلفظ کے ساتھ کہنا چاہیے۔

خوش طبعی: کسی سے ایسی دل لگی یا مزاح کرنا جس سے کسی کی توہین اور ہتک بھی مقصود نہ ہو اور واقعی طور پر جھوٹ بھی نہ ہو تو ایسی ہنسی مزاح کرنا جائز بلکہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ شمائل شریفہ میں اس قسم کی کئی مثالیں ملتی ہیں، مثلا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک بار (اے دو کانوں والے) کہہ کر پکارا، تو اس میں دل آزاری نہیں بلکہ دلجوئی اور محبت کا اظہار ہوتا ہے، اسی طرح ایک مرتبہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ سے سواری کے جانور دینے کی عرض کی آپ نے اس کے جواب میں فرمایا (میں تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا)۔ اسی طرح حضور سیدی و مرشدی سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ بھی بعض اوقات ہنسی مزاح کیا کرتے تھے، مثلاً جب محترم حاجی محمد علی صاحب نے اپنے صاحبزادگان کو موٹر سائیکل خرید کر دے دی تو ان کے فرزند میاں غلام مرتضیٰ (جن کو نہ پڑھنے سے دلچسپی تھی نہ کاروبار سے لگن) کو بار بار موٹر سائیکل پر چکر مارتے دیکھ کر ازراہ مزاح فرمایا: حاجی صاحب نے آپ کو آدھی شادی تو کرادی ہے کہ موٹر سائیکل خرید کر دی، باقی آدھی شادی رہتی ہے، انشاء اللہ وہ بھی ہوجائے گی۔

ایک مرتبہ محترم مولوی محمود الحسن صاحب مری نے بیماری سے شفاء کے لئے حضور سے دعا کرائی۔ عموماً آپ مریض سے علاج کے سلسلے میں بھی پوچھتے تھے کہ کس سے علاج کروا رہے ہو، کتنا فائدہ ہے وغیرہ۔ صورت حال کے مطابق بعض یونانی نسخے خود بھی تجویز فرماتے تھے، یا کسی حکیم اور ڈاکٹر کا نام لے کر فرماتے کہ اس کے پاس جائیں۔ مولوی صاحب مذکور نے پوچھنے پر بتایا کہ ٹھٹھہ کے حکیم سومرو سے دوائی لی ہے، جس کے لئے انہوں نے کہا کہ شہد اور مکھن سے کھانا، یہ سن کر تبسم فرماتے ہوئے فرمایا: اچھا ایسی دوائی تو مجھے بھی لینی چاہیے۔ اس کے بعد آپ نے خوش طبعی کے بارے میں چند ایک واقعات بھی سنائے۔

ڈاکٹر گل حسن شیخ صاحب سکنہ خیرپور ناتھن شاہ کو جب کوئی ملازمت اور ذاتی ہسپتال وغیرہ بھی نہیں تھی، غالباً برسر روزگار ہونے کے لئے دعا کی گزارش کرنے پر ہنستے ہوئے مزاحاً فرمایا: پرواھ نه ڪر، ذڪر گھڻو ڪر، استقامت سان رھ، انشاء الله تعالى توکي ڪنوار به جلد ملندي، ڪار به ملندي. (پرواہ نہ کر، ذکر بکثرت کرتا رہ، استقامت سے رہ انشاء اللہ تعالیٰ بیوی بھی مل جائے گی اور کار کے بھی مالک بنو گے)۔ اسی طرح فقیر عبدالرزاق کلیری جب آتے تو ہنستے ہوئے فرماتے ”محترم مولوی اللہ یار صاحب پنجابی سندی سادے درویش صفت اور بے تکلف مبلغ ہیں“۔ ایک بار حضور کو کہا یا حضرت بڑے خلفاء کرام کی تبلیغ تو لوگ توجہ سے سنتے ہیں، مرید ہوتے ہیں، میری تبلیغ اس قدر شوق سے نہیں سنتے۔ دعا فرمائیں کہ میں بھی بڑا خلیفہ ہوجاؤں (یعنی لوگ متوجہ ہوکر میری تبلیغ بھی سنیں) اس پر ہنس کر فرمایا۔ ڈونہیں ہتو جہے (کسی توتلی زبان کے شخص کا یہ کلام اسی انداز سے تشبیہ کے موقع پر ذکر فرماتے تھے) میں اور آپ دونوں ایک جیسے سیدھے سادے آدمی ہیں، برابر بڑے خلفاء کرام کی تبلیغ لوگ توجہ سے سنتے ہیں، لیکن تبلیغ کرنے کا ثواب ہم اور آپ کو بھی اسی طرح ہی ملے گا، تو بڑے خلفاء کرام کی مقبولیت دیکھ کر سست کیوں ہوجائیں۔ ہمارا مقصد بھی تو ثواب ہے نہ کہ لوگوں کا متوجہ کرنا، مرید بنانا وغیرہ، اس پر مولوی صاحب موصوف بڑے مطمئن اور خوش ہوئے۔

بدعت سے نفرت

آپ کو جہاں شریعت و سنت سے اس قدر قلبی محبت تھی کہ کسی سنت غیر موکدہ اور مستحب و نفل کو چھوڑنا بھی گوارہ نہ تھا، وہاں خلاف سنت بدعات، غیر شرعی رسم و رواج سے بھی انتہائی نفرت تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ دین پور شریف کے مال و مویشی میں ایک وبائی بیماری پھیل گئی، یکے بعد دیگرے کئی بکریاں مرگئیں۔ دیہاتی سیدھے سادھے لوگ ان دنوں ہندوانہ رسم کے مطابق ایسے موقعوں پر میانوالوں کو لے آتے تھے، جو نہ معلوم کیا کچھ پڑھ کر دم کرتے اور ساتھ ساتھ ڈھول باجے بجاتے تھے۔ ایک مرتبہ بعض فقیر بھی دوسرے کے کہنے پر عظیم نامی ایک میانوال کو لے آئے۔ جس نے ڈھول باجے بجائے اور مال مویشی کو ڈنڈے مار مار کر بھگاتا رہا، اس وقت حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ درگاہ رحمت پور شریف میں تھے۔ جب آپ کو فقیروں کی اس صریح غلطی کا علم ہوا تو حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اجازت لے کر دین پور شریف تشریف لائے تو اتنے غم و غصہ کا اظہار کیا کہ سب پریشان ہوگئے اور سوچنے لگے کہ آپ کو اب کیسے راضی کیا جائے۔ بہرحال کافی تنبیہہ کے بعد فرمایا کہ جس نے خلاف سنت ایک بدعت کا ارتکاب کیا ہے وہ کامل مومن نہیں ہوسکتا، نہ ہی اس کا طریقت اور فقیری سے واسطہ رہا۔ بالاخر دوبارہ ان کو نئے سرے سے تجدید ایمان کی دعائیں پڑھا کر دوبارہ ان سے بیعت لی اور ان سے راضی ہوئے۔ (فقیر غلام محمد کنڈیارو)

اگر کسی فقیر کی مونچھیں غیر ضروری طور پر بڑھی ہوئی دیکھتے خواہ شوقیہ یا غفلت کی وجہ سے تو اسے مونچھیں کم کرنے کا حکم فرماتے تھے۔ اسی قسم کا ارشاد رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ (شمائل نبوی قلمی صہ ۲۵۲ شرح زرقانی صہ ۲۳۴ جلد ۴)
اسی طرح اگر کسی پرانے فقیر کی داڑھی قبضہ سے بڑھی ہوئی اور کنگھی وغیرہ کے استعمال میں بھی سستی محسوس کرتے تو اسے قبضہ سے بڑھتی ہوئی داڑھی کم کرنے کا حکم فرماتے تھے۔ چنانچہ یکم جمادی الثانی ۱۴۰۰ھ کو فیصل آباد کے ایک عمر رسیدہ فقیر کی ازحد لمبی داڑھی دیکھ کر فرمایا، داڑھی کی حد ہے قبضہ، اس قدر داڑھی رکھنی ضروری ہے۔ آپ کی داڑھی غیر ضروری طور پر بڑھ گئی ہے۔ اس کے بعد اپنی ریش مبارک مٹھی میں بند کرکے اسے سمجھایا کہ قبضہ اسے کہتے ہیں جو بال قبضہ سے بڑھ چکے ہیں کاٹ دیں۔
تقریباً روزانہ کئی ایک آدمی ذکر سیکھنے کے لئے حاضر ہوتے تھے اور ہر بار آپ دیر تک وعظ و نصیحت کے علاوہ داڑھی رکھنے کی اہمیت و ضرورت اور داڑھی مونڈھنے کے بارے میں وعید سناتے تھے۔ تاہم براہ راست کسی نئی وارد کو داڑھی نہ رکھنے کی وجہ سے شرماتے نہیں تھے۔ لیکن اگر کوئی پرانا جاننے والا ہوتا اور بار بار آپ کی صحبت میں آنے کے باوجود داڑھی نہ رکھتا تو آپ اس پر انتہائی رنجیدہ ہوتے تھے۔ اس عاجز نے مختلف اوقات میں آپ کو بعض مخلصین کو سخت لہجہ میں تنبیہہ کرتے اور شرماتے دیکھا جو آپ سے عقیدت و محبت کے باوجود قبضہ برابر داڑھی نہیں رکھتے تھے۔

ایک مرتبہ طاہر آباد شریف میں ایسی غلطی پر ایک پرانے مخلص کو اس قدر ڈانٹا اور احادیث نبویہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے وعیدیں سناکر اس قدر شرمایا کہ تمام اہل مجلس آپ کی رنجش دیکھ کر کانپنے لگے، کئی حجام (بال بنانے والے ) آپ سے بیعت اور ارادت کے بعد اپنے پیشے سے اس لئے دست بردار ہوگئے کہ کسی کی داڑھی مونڈھ کر عنداللہ ماخوذ نہ ہوں۔ درگاہ اللہ آباد شریف کے مؤذن بعض اوقات اذان سے قبل اسپیکر پر حق پیر مٹھا یا حق سوہنا سائیں وغیرہ کہتے تھے، اس پر حضور نے ان کو تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے پیر و مرشد کے متعلق کوئی تعریفی کلمہ کہنا گناہ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ احادیث نبویہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں اذان کے کلمات مقررہ ہیں۔ لہٰذا اذان سے متصلا پہلے یا فورا بعد اذان کے مقررہ کلمات کے علاوہ کوئی جملہ نہ کہیں، یہ خلاف سنت فعل ہے، اس لئے آئندہ احتیاط کریں۔

خلاف شریعت و طریقت ہونے کی وجہ سے آپ مزامیر یعنی ڈھول باجہ، سارنگی وغیرہ سننے کو ناپسند کرتے تھے، اور آپ ہی کے صدقہ پوری جماعت میں کسی بھی شادی یا خوشی کے دوسرے موقعہ پر ڈھول، باجہ نہیں بجایا جاتا، یہاں تک کہ ایک مرتبہ درگاہ اللہ آباد شریف میں تمام فقراء سے یہ عہد لیا کہ کوئی ساز و سرود یا گانا وغیرہ نہیں سنے گا۔ خاص کر جن کے ٹیپ ریکارڈ میں ریڈیو بھی تھا ان کو خصوصی تاکید کی کہ کبھی کوئی گانا یا ساز پر مشتمل کلام نہیں سنیں گے۔

قوالی سننا: سید واحد علی شاہ صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضور حیدرآباد تشریف فرما ہوئے تھے۔ وہاں ایک آدمی جو حضور سے بیعت ہونے سے پہلے چشتیہ سلسلہ کے کسی بزرگ سے بیعت تھے۔ چونکہ حضرات چشت رحمہم اللہ تعالیٰ کے یہاں عموماً ساز کے ساتھ قوالی مروج ہے، اس لئے اس نے عرض کی کہ حضور قوالی سننے کے بارے میں جو ارشاد ہو مجھے امر فرما دیں (غالباً وہ قوالی سے زیادہ مانوس تھے اور اب بھی سننا چاہتے تھے) آپ نے فرمایا ہمارے طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں تو قوالی نہیں سنی جاتی۔ اس کے بار بار اصرار کرنے پر فرمایا، اگر قوالی سننا ہی ہے تو پھر جہاں قوال باشرع اور ذاکر ہوں اور سننے والے حضرات بھی باشرع اور صاحب نسبت ہوں اور جو قوالی گائیں وہ بھی شریعت و سنت کے پابند ہوں، مزامیر یا کوئی دوسرا خلاف سنت عمل نہ ہو، تو اس صورت میں قوالی سن سکتے ہیں۔

سوال و چندہ: سوال و چندہ کو آپ ازحد ناپسند فرماتے تھے، اور ازروئے شرع جن کو سوال کرنے کی اجازت نہیں پھر بھی بھیک مانگتے پھرتے ہیں، ان کی سخت مذمت فرماتے تھے، اس کے باوجود اگر کوئی سائل آجاتا اور کچھ مانگتا تو آپ اس کو کچھ نہ کچھ دیا کرتے، ساتھ ساتھ اس کو کسب حلال کی ترغیب دیتے تھے تاکہ محنت و مزدوری کرکے گزارہ کرے۔ ایک مرتبہ اسی قسم کا ایک سائل آیا جو بظاہر صحت مند، ٹھیک ٹھاک تھا، آپ نے کافی دیر تک اسے نصیحت کی، سمجھایا، بعد میں جب گھر گئے تو حضرت قبلہ صاحبزادہ مدظلہ العالی کو پچاس روپے دے کر فرمایا یہ جاکر اسے دے دو، ہم تو اسے فی سبیل اللہ دیتے ہیں، واپس نہیں لیں گے۔ مگر اس کو یہ کہنا کہ آپ کی ضرورت کے تحت یہ پیسے ادھا دیئے ہیں، جاکر محنت مزدوری کریں، جب اپنی ضروریات سے زائد اتنے پیسے جمع ہو جائیں واپس دے جانا۔ یہ تھی آپ کی ہمدردی کے ساتھ ساتھ اعلی تربیت بھی۔