فہرست
سیرت ولی کامل (حصہ اول)

تصنیف و تالیف

اللہ تعالیٰ نے حضور سوہنا سائیں قدس سرہ کو تقریر کی طرح تصنیف و تالیف کی بھی غیر معمولی صلاحیت عطا فرمائی تھی، مگر مسلسل تبلیغ اور انتظامی مصروفیات کی وجہ سے اس جانب زیادہ توجہ نہ کرسکے، تاہم جن موضوعات پر آپ نے کچھ تحریر فرمایا اس سے آپ کی تحریری صلاحیت اور خداداد ملکہ کا بخوبی اندزہ ہو جاتا ہے۔ آپ کی درج ذیل جملہ تصانیف غیر مطبوعہ ہیں۔

۱۔ دوایہ، فارسی، سندھی ۳۰ صفحات کی یہ کتاب آپ نے طالب علمی کے زمانے میں تالیف فرمائی تھی۔

۲۔ عمدہ لباس اور داڑھی کے بارے میں : ۴۳ صفحات

۳۔ انتخاب آیات قرآنیہ و عربی تفاسیر: ۳۷ صفحات

۴۔ اخلاق و عادات: ۷۰ صفحات

۵۔ اتباع سنت، تقلید اور تصوف: ۵۴ صفحات

۶۔ منتخب اشعار و دیگر مختلف موضوعات: ۵۴ صفحات

۷۔ تعویذات و عملیات: ۶۳ صفحات

ان کے علاوہ کئی اور مسودات بھی تحریر فرمائے ہیں۔

آپ کی پسندیدہ کتابیں

یوں تو تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف و دیگر علوم شرعیہ کی کتابوں سے حضور کو اس قدر دلچسپی تھی کہ مدرسہ کی لائبریری (جس میں درسی و غیر درسی کتابوں کا غیر معمولی ذخیرہ ہے) کے علاوہ سینکڑوں کتابیں حضور کے مطالعہ کے لئے قیام گاہ پر ہر وقت موجود رہتی تھیں۔ جب بھی حضور کسی کام سے گھر بلاتے تھے آپ کی چارپائی کے سرہانے چند کتابیں ضرور نظر آتی تھیں۔ اس لئے یہاں ان میں سے منتخب کتابوں کی مختصر سی فہرست بھی درج کی جاتی ہے تاکہ سالکین ان کتابوں سے زیادہ مستفیض ہوں۔

۱۔ تفسیر مظہری کامل

۲۔ تفسیر ابن کثیر کامل

۳۔ مشکواۃ المصابیح۔ عربی دان حضرات کے لئے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح کو بھی پسند فرماتے تھے۔

۴۔ احیاء علوم الدین کامل بالخصوص باب العلم۔

۵۔ فتح الربانی وعظ حضرت محبوب سبحانی قدس سرہ۔

۶۔ مکتوبات حضرت امام ربانی قدس سرہ۔

۷۔ معارف مثنوی شرح مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ۔

۸۔ الوابل الصیب۔ (ذکر کے متعلق عربی میں ہے)

۹۔ الحدیقۃ الندیۃ فی آداب الطریقہ النقشبندیۃ۔

۱۰۔ رکن دین، مولفہ مولانا رکن الدین نقشبندی علیہ الرحمہ۔

کتابوں سے دلچسپی کی ایک اہم علامت ان کی صحیح دیکھ بھال اور حفاظت ہے۔ اس معاملہ میں بھی آپ بہت محتاط رہتے تھے۔ گھر میں رکھی ہوئی کتابوں کی دیکھ بھال اور گرد و غبار جھاڑ کر صاف کرنے کے لئے وقفہ وقفہ سے اس عاجز، مولانا محمد نواز صاحب اور مولانا محمد سعید صاحب کو بلاتے تھے اور خود بھی ساتھ کھڑے ہوکر کتابیں اٹھا اٹھا کر کپڑے سے جھاڑتے رہتے تھے۔ ایک بار اس عاجز کو وہ کتابیں جن پر خود پڑھے تھے۔ (۵۰ سے ۶۰ سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود تمام کتابیں جو صرف، نحو، فقہ وغیرہ کی درسی کتابیں تھیں) جوں کی توں سلامت تھیں۔ غالباً ان کی جلدیں بھی خود ہی بنائیں تھیں۔ شاذ و نادر ہی کسی کتاب پر نام یا سیاہی کا کوئی معمولی نشان نظر آیا ہو۔ آپ مروجہ حسین مگر کمزور جلد سازی سے مطمئن نہیں ہوتے تھے۔ حضور تقریباً ہر سال حجاز مقدس سے آنے والے فقراء کے ذریعے تفسیر و حدیث کی کتابیں منگواتے رہتے تھے۔ آپ نے وہاں سے کئی ایسی کتابیں بھی منگوائیں جو پاکستان میں ملتی ہی نہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ دیمک، کیڑے وغیرہ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ کتابیں کھلی ہوادار جگہ میں ہوں، اس لئے مدرسہ جامعہ غفاریہ اللہ آباد شریف کی لائبریری کے لئے وضو خانہ اور مدرسہ کے ہال کی چھت کے اوپر دار المطالعہ (لائبریری) تعمیر کرنے کی تجویز بھی زیر غور آئی مگر ان کی چھت کمزور ہونے کی وجہ سے مدرسہ کی چاردیواری کے اندر جنوب مغربی کمرے سے متصل جگہ پسند فرمائی تھی۔

بفضلہ تعالیٰ حضور کی ذاتی دلچسپی اور کوشش کے صدقے میں آج مدرسہ جامعہ عربیہ غفاریہ اللہ آباد شریف کے درالمطالعہ (لائبریری) میں سینکڑوں کتابوں کا اہم ذخیرہ موجود ہے جن میں بڑی تعداد میں نادر قلمی کتابیں بھی موجود ہیں۔ قرآنی تفاسیر اور اصول تفسیر کے موضوع پر پچاس سے زائد کتابیں ہیں۔ جن میں تفسیر کبیر، تفسیر الجواہر فی تفسیر القرآن، تفسیر المنار، تفسیر قرطبی، تفسیر الدر المنثور جیسی تفسیر بھی موجود ہیں جن میں سے ۸ سے ۱۳ جلدیں ایک ایک تفسیر کی ہیں۔ صحاح ستہ اور دیگر حدیث و اصول حدیث کی ۱۳۳ کتابوں کا وافر ذخیرہ ہے جن میں لتعیق لصبیح، تحفۃ الاخوذی، اعلاء انسنن اوجز المسالک اور کنز العمال (جس کے ۱۷۷ صفحات اور اس میں ۴۶۶۲۴ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر معمولی ذخیرہ ہے) جیسی کئی کتابیں بھی ہیں جن کی آٹھ سے اٹھارہ تک ہر ایک کی جلدیں ہیں۔ سیرت، سوانح اور رد مذاہب باطلہ کے موضوع پر ۳۹۸ کتابیں ہیں۔ ان کے علاوہ لغت، ادب، اخلاقیات و دیگر موضوعات پر درسی اور غیر درسی کتابوں کا قابل قدر ذخیرہ موجود ہے۔ مرکزی مدرسہ کے علاوہ جماعت کے دیگر جملہ مدراس میں بھی قابل قدر دار المطالعے قائم ہیں جبکہ حضور کی دلچسپی اور ترغیب دلانے پر جماعت اصلاح المسلمین اور روحانی طلبہ جماعت کے کئی ارکان نے بھی اپنے اپنے علاقوں میں اسلامی موضوعات پر دارالمطالعے قائم کئے ہیں۔

شعبہ نشر و اشاعت

حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی شروع سے یہ کوشش رہی کہ شریعت و طریقت کی زبانی تبلیغ کے علاوہ تحریری تبلیغ بھی مسلسل جاری رہے۔ خاص ذکر اللہ، اسلام کے بنیادی ارکان، اسلام کی حقانیت، اسلام کے خلاف کئے جانے والے اسلام دشمن عناصر کے اعتراضات کے عقلی و نقلی جوابات موثر انداز میں دیئے جائیں تاکہ مغربی ماحول میں پرورش پانے والی نوجوان نسل کی ذہنی تطہیر اور اصلاح ہوسکے۔ اس کے علاوہ تصوف و سلوک کی ضرورت فوائد اور اس کے جزئیات کی تشریح کے متعلق بھی کتابیں شائع ہوں۔ الحمدللہ حضور کی حیات مبارکہ میں بھی اس راہ میں کافی پیش رفت ہوئی۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

بیدار مورائی صاحب کی تصانیف

نمبر شمار، نام کتاب، زبان، موضوع

۱۔ گنجینہ حیات غفاریہ، سندھی، سوانح حیات پیر مٹھا علیہ الرحمہ

۲۔ برکات تبلیغ، سندھی، موضوع نام سے ظاہر ہے۔

۳۔ روحانی زندگی، سندھی، زندگی بسر کرنے کا اسلامی طریقہ

۴۔ جوگی جاگایوس، سندھی، ایک اصلاحی افسانہ

۵۔ عشق حبیب، سندھی، عشق رسول پر اہم واقعات

۶۔ کامیاب زندگی، سندھی، زندگی میں مشکلات سے بچنے کا طریقہ

۷۔ راہ نجات، سندھی، کھانے پینے کے اسلامی آداب

۸۔ دین جو درد، سندھی، دین کی فکرکے متعلق

۹۔ مکتوبات بخشیہ، سندھی، اردو حضرت سوہنا سائیں کے خطوط

۱۰۔ دنیا دم گزر، دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں

۱۱۔ طاعۃ اللہ فی طاعۃ الرسول، مترجم عربی، اتباع سنت کے موضوع پر

راقم الحروف فقیر حبیب الرحمٰن گبول (حبیب بخشی) کی تالیفات

۱۲۔ ہدایت السالکین، اردو، نیک صحبت کی ضرورت

۱۳۔ برکات رمضان، سندھی، موضوع عنوان سے ظاہر ہے

۱۴۔ پندرھویں صدی ہجری کا پیغام، اردو، نئی صدی ہجری کا استقبال کس طرح کیا جائے؟

دیگر مبلغین حضرات کی تالیفات

۱۵۔ ذکر اللہ، اردو، ذکر اللہ کے موضوع پر۔ مؤلفہ (مولوی نور حسین طاہری)

۱۶۔ روحانی تبلیغ، سندھی، حضرت علامہ محمد داؤد صاحب

۱۷۔ نزول رحمت منظوم، اردو، احترام رمضان کے متعلق مولانا نور الدین انور صاحب

۱۸۔ بہار طہارت، سندھی، وضو و نماز کے مسائل مؤلفہ مولانا اسرار احمد صاحب لیکچرار شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیر پور

۱۹۔ رمضان جوں رحمتوں۔ سندھی۔ مؤلفہ مولانا محمد اسماعیل صاحب

۲۰۔ امام اعظم ابوحنیفہ، سندھی، امام موصوف قدس سرہ کے حالات و فضائل منجانب روحانی طلبہ جماعت ہالا

۲۱۔ رمضان جوں فضیلتوں، سندھی، منجانب روحانی طلبہ جماعت ہالا

۲۲۔ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ، سندھی، امام موصوف کی مختصر سوانح حیات، از روحانی طلبہ جماعت حیدر آباد

۲۳۔ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ، سندھی، از روحانی طلبہ جماعت لاڑکانہ

۲۴۔ معراج المومنین، سندھی، نماز کے بارے میں مؤلفہ الحاج علامہ مولانا کریم بخش صاحب کراچی

۲۵۔ زینت النساء، سندھی، نماز و دیگر مسائل برائے خواتین مؤلفہ مولانا محمد اسماعیل صاحب

۲۶۔ نماز جا ضروری مسائل، سندھی، وضو و نماز کے مسائل مؤلفہ مفتی عبدالرحمان صاحب

۲۷۔ محبت کا پیام، اردو، نیک دعوت مؤلف مولانا عبدالغفور صاحب

۲۸۔ احسن التشریح، سندھی، قصیدہ بردہ شریف کی شرح مؤلفہ خلیفہ حضرت الحاج مولانا محمد ادریس صاحب

۲۹۔ مناقب الصالحین، سندھی، شان اولیاء اللہ مؤلفہ حضرت مولانا خلیفہ الحاج محمد ادریس صاحب

۳۰۔ الاربعین، سندھی، مناقب خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم مؤلفہ خلیفہ الحاج مولانا محمد ادریس صاحب

۳۱۔ جام تصوف، سندھی، تصوف کے رموز و اسرار مؤلفہ خلیفہ الحاج مولانا محمد ادریس صاحب

۳۲۔ تحفۃ الحجاج ۳ جلد، سندھی، مسائل و احکام حج مؤلفہ خلیفہ الحاج مولانا محمد ادریس صاحب

۳۳۔ نورانی موتی، پنجابی، اسلامی تعلیمات کے موضوع پر مؤلفہ مولانا محمد شریف مسافر پتوکی

۳۴۔ مشکل کشا، سندھی، پند و نصائخ مؤلفہ حضرت الحاج مولانا عبداللہ مری صاحب

۳۵۔ فقراء محمدی، سندھی، نیک لوگوں کے احوال الحاج مولانا عبداللہ مری صاحب

ان کے علاوہ تقریباً پچاس اشتہارات اصلاح المسلمین، جمعیت علماء روحانیہ غفاریہ، اور روحانی طلبہ جماعت کی جانب سے شائع ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ انتہائی مزاج شناس تھے، اور ہمیشہ فعال اور متحرک لوگوں کی غیر معمولی ہمت افزائی فرماتے تھے تاکہ دین اسلام کی اشاعت کے لئے زیادہ سے زیادہ مخلص کارکن آگے آئیں۔ چنانچہ تصنیف و تالیف کے میدان میں دلچسپی دیکھ کر محترم بیدار مورائی اور اس عاجز سیہ کار کی جس طرح دلجوئی اور ہمت افزائی فرماتے رہے اس کے پیش نظر اگر یہ کہا جائے کہ یہ جملہ تصانیف آپ ہی کی ظاہری و باطنی عنایات کا ثمرہ ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ محترم بیدار مورائی صاحب نے افسانہ کے انداز میں ایک کتاب لکھی تھی جسے عام لوگوں میں مقبولیف حاصل ہوئی مگر بعض لکھے پڑھے لوگوں نے اس پر طرح طرح کے اعتراضات شروع کردیئے۔ محترم بیدار صاحب جو نسبتاً کچھ زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں، اس تنقید سے پریشان ہوئے اور فیصلہ کرلیا کہ آئندہ کوئی کتاب نہیں لکھیں گے۔ حضور کو معلوم ہوا تو آپ نے ازراہ شفقت ان سے فرمایا جو لوگ آپ پر اعتراض کرتے ہیں آپ ان سے پوچھیں کہ مثنوی شریف میں مولانا روم علیہ الرحمہ نے چوہے، مینڈک، اونٹ اور طوطی کے جو واقعات لکھے ہیں، کیا وہ چشم دید واقعات ہیں؟ اگر مولانا روم علیہ الرحمہ جیسے بزرگ نصیحت کے طور پر فرضی واقعات بیان کر سکتے ہیں تو آپ نے کونسا قصور کیا ہے؟ لوگوں کی ایسی باتوں پر کان نہ دھرا کریں۔ حضور کی اس ہمدردی و ہمت افزائی سے بیدار صاحب پھر سے بیدار ہوئے اور ان کی پریشانی ختم ہوئی۔ حضرت صاحب نور اللہ مرقدہ، بیدار صاحب اور اس عاجز کی کتابوں کے لئے طباعت سے پہلے وقت نکال کر جستہ جستہ مقامات سے سماعت فرما کر مزید ہمت افزائی فرماتے تھے۔ اگر کہیں تصحیح کی ضرورت ہوتی تو بھی اس قدر مشفقانہ اندز میں غلطی کی نشاندہی فرماتے کہ مزید ہمت افزائی ہو جاتی اور جب کتاب چھپ کر آجاتی تو جماعت میں کتاب کا تذکرہ فرماتے، مولف کی تعریف فرما کر خریدنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ واقعات میں دلچسپی پیدا کرنے، حوالہ جات تحریر کرنے، مضامین جمع کرنے کا طریقہ، اوقات کار بنا کر اس کے مطابق لکھنے، انداز تحریر میں نرمی اور سلاست پیدا کرنے کے بارے میں وقتاً فوقتاً سمجھا کر رہنمائی بلکہ تربیت فرمایا کرتے تھے اور اس سلسلہ میں ماسلف علماء کرام اور مسلمان بادشاہوں کے واقعات سنا کر وقت کے صحیح استعمال کی تاکید فرماتے تھے۔

حضور کے وصال کے بعد کی تالیفات

بفضلہ تعالیٰ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے وصال کے بعد بھی تصنیف و تالیف کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ مزید برآں، مستقل سہ ماہی رسالہ الطاہر کا قابل قدر اضافہ بھی ہوا ہے جس کے سات شمارے اب تک شائع ہو چکے ہیں۔ (بفضلہ تعالی سیرت ولی کامل کے موجودہ ایڈیشن تک ان کی تعداد بتیس ہو چکی ہے)

مزید تفصیل

۱۔ انتخاب گنجینہ حیات بخشیہ، اردو، مختصر سوانح حیات حضور سوہنا سائیں قدس سرہ مؤلفہ فقیر حبیب الرحمن

۲۔ ذکر الرحمٰن دو ایڈیشن، اردو، موضوع عنوان سے ظاہر ہے۔ مؤلفہ فقیر حبیب الرحمن گبول

۳۔ برکات رمضان بار دوم، سندھی، موضوع عنوان سے ظاہر ہے۔ مؤلفہ فقیر حبیب الرحمن گبول

۴۔ سوانح حیات سوہنا سائیں قدس سرہ جلد اول و دوم، سندھی، مؤلفہ بیدار مورائی صاحب

۵۔ دیدار بازی، سندھی، بد نظری کے نقصانات مؤلفہ بیدار مورائی

۶۔ زہریلا ڈنگ، سندھی، ایک اصلاحی ناول مؤلفہ بیدار مورائی صاحب

۷۔ تعارف، اردو، حضرت سجن سائیں مدظلہ کے تبلیغی کارنامے مؤلفہ بیدار مورائی

۸۔ نظر کرم، اردو، نیک صحبت کی تاثیر اور تعارف مؤلفہ فقیر حبیب الرحمن گبول

۹۔ نظر کرم، سندھی، فقیر حبیب الرحمن گبول

۱۰۔ اصلاح المسلمین، اردو، مختلف اہم اسلامی مقالات ناشر جمعتیہ علماء روحانیہ غفاریہ

۱۱۔ اندھیری راتیں دین کی باتیں، اردو، اسلامی تعلیمات مؤلفہ مولانا انوار المصطفیٰ صاحب لاہور

۱۲۔ المعلم، سندھی، اساتذہ کی ذمہ داریاں۔ ناشر جماعت اساتذہ روحانیہ

۱۳۔ نجاسات النساء، سندھی، خواتین کے مخصوص مسائل مؤلفہ خلیفہ علامہ الحاج مولانا کریم بخش صاحب

۱۴۔ الدولۃ الکبریٰ، سندھی، شرح اسماء اللہ الحسنیٰ مؤلفہ مولانا خلیفہ حاجی محمد ادریس صاحب

۱۵۔ الطاہر، اردو، سہ ماہی رسالہ، تاحال ۳۲ شمارے شائع ہو چکے ہیں۔

۱۶۔ اوڑھنا بچھونا، اردو، مؤلف مولانا انوار المصطفیٰ صاحب لاہور

شعر و شاعری

حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے مروی ہے۔ الشعر بمنزلہ الکلام فحسنہ کحسن الکلام و قبیحہ کقبیح الکلام (کنز العمال حدیث نمبر ۷۹۷۹جلد ثالث) یعنی شعر بھی عام کلام کی طرح ہے، اچھا شعر اچھے کلام کی مانند ہے اور خراب شعر خراب کلام کی مثل ہے۔ صاحب کنز العمال علی متقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے وزن اور قافیہ کی رعایت کرتے ہوئے ولید کی یہ رجز نقل کی ہے۔
(جب احد میں زخم لگ جانے سے انگلی مبارک سے خون بہنے لگا تو رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا) ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ مالقیت

یعنی تو ایک انگلی ہی ہے جس سے خون بہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں تجھے یہ تکلیف پہنچی ہے۔ شمائل ترمذی شریف میں ایک اور قطعہ مروی ہے۔ انا النبی لا کذب و انا ابن عبدالمطلب (میں نبی خدا ہوں اس بات میں کوئی جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کی اولاد (پوتا) ہوں۔ لہذا جن روایات میں شعر و شاعری کی مذمت ثابت ہے ان سے مراد وہ اشعار ہیں قبیح ہوں، نہ وہ جن سے مقصد اصلاح ہو، نصیحت وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور فقہ کے ائمہ مجددین اور سینکڑوں صاحب کمال بزرگان دین سے عمدہ سے عمدہ اشعار کہنا ثابت ہے۔ یہی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اشعار کہنا ثابت ہے۔ سیدی و مرشدی حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کو اللہ تعالیٰ نے شعر و شاعری کا ملکہ عطا فرمایا تھا، آپ کے اشعار سلوک و تصوف، حقیقت و معرفت کی راہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کے پر تاثیر اشعار جہاں سلاست، فصاحت بلاغت اور استعارات و کنایات کی وجہ سے سندھی ادب میں ایک درخشاں باب کا اضافہ ہیں وہاں قرآن مجید، احادیث نبویہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا صریح منظوم ترجمہ اور تشریح ہونے کی وجہ سے تبلیغ و اشاعت اسلام کا عمدہ ذریعہ بھی ہیں۔ ملاحظہ ہوں آپ کے چند اشعار کے چند مصرعے

لئي معرفت حاصل ڪرڻ پرور توکي پيدا ڪيو
رزق روزي جو ذمو سارو آهي پاڻ تي کنيو
قرآن ۾ سو صاف ظاهر رب آ وعدو ڪيو
ڏسي الله جا ڪرم، احسان ڪجھ شرم ته ڌار تون

ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنی معرفت حاصل کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ تیرے رزق کا ذمہ بھی خود ہی لے لیا۔ قرآن مجید میں صاف طور پر اسکا وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسان دیکھ کر تو بھی کچھ تو شرم کر“۔ یہ مصرعہ آیت مبارکہ ”وما خلقت الجن والانس الا لیعبلون“ اور ”ومامن دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا“کا ترجمہ اور تشریح ہے۔

ذڪر سان اچي ٿو قلب کي قرار
ذڪر نفس مارڻ جي لاءِ آ ترار
ذڪر سان ڀڄي ٿئي ٿو شيطان بيزار
ذڪر ڪر، ذڪر ڪر .....

ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو چین حاصل ہوتا ہے۔ اللہ کا ذکر نفس کو مارنے کے لئے تلوار کی مانند ہے ذکر اللہ سے شیطان تنگ ہوکر بھاگ جاتا ہے۔ لہٰذا تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کر، ذکر کر“۔ بیک وقت آیت شریغہ ”الا بذکر اللہ تطمئن القلوب“ اور حدیث رسول صلّی اللہ علیہ وسلم ”اذا ذکر اللہ خنس“ کی ترجمانی کرتا ہے۔

تو ذڪر ڪمايو نه ذاتي آ، تو اجائي وڃائي حياتي آ،
اهو جيئرو نه آهي مماتي آ، حڪم منجھ حديث نروار ادا،
رھ نه دم ڌڻيءَ کان ڌار ادا .....

ترجمہ: تو نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا ہی نہیں، تو نے اپنی زندگی ضائع کردی۔ ایسا آدمی مردہ ہے، زندہ نہیں ہے، یہ حکم حدیث شریف سے ثابت ہے۔ اس لئے تو اللہ تعالیٰ سے دور نہ رہ، بلکہ اسے یاد کرتا رہ۔ حدیث رسول خیر الانام صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ”مثل الذی یذکر ربہ والذی لا یذکر مثل الحی والمیت“ کی مفصل تشریح ہے۔ آپ کے تمام اشعار نصیحت آمیز اور مفید ہوتے تھے۔ توحید الٰہی، ذکر اللہ تعالیٰ اور عشق حضور والی کوثر صلّی اللہ علیہ وسلم اور مرشد کامل کی تعریف آپ کے اہم موضوع تھے۔ رسمی پیری مریدی اور خلاف شریعت و طریقت امور کی مذمت بھی آپ کے اشعار میں جا بجا ملتی ہے۔ آپ کے اشعار میں تشبیہہ و استعارات بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت قبلہ خلیفہ سید نصیر الدین شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس عاجز کو بتایا کہ ایک مرتبہ غالباً کنڈیارو سے دین پور شریف جاتے ہوئے رات کے وقت حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ اور بھی کافی فقراء کشتی پر سوار تھے، چاندنی رات تھی، حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نے چاند کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور اسی وقت منقبت بناکر پڑھنا شروع کی جس میں اپنے پیر و مرشد حضرت جناب پیر مٹھا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نورانی چہرہ کے مقابلے میں چاند اور سورج کو بھی ماند قرار دیا ہے۔ فرمایا

ڏسي صورت تنهنجي ۽ حسن و جمال
آيو نور سج چنڊ جي کي زوال
حسن تنهنجو سهڻا ڪمال در ڪمال
پير مٺا سائين پير مٺا سائين پير مٺا .....

ترجمہ: تیری شکل و صورت اور حسن و جمال دیکھ کر چاند اور سورج کی روشنی بھی ماند پڑگئی، کمال درجہ کا حسن آپ کے اندر پایا جاتا ہے اے میرے مرشد حضرت پیر مٹھا

دیر و حرم میں روشنی شمس و قمر سے ہو تو کیا
مجھ کو تو تو پسند ہے اپنی نظر کو کیا کروں

مافی الضمیر سمجھانے کے لئے عموماً شعراء معاشرے میں رائج تشبیہات استعارات یا شخصیات کو موضوع سخن بناتے ہیں، تاکہ سماج کا ہر فرد اسے اپنا دکھ درد سمجھے اور شاعر کو اپنا ترجمان تسلیم کرے۔ اس سلسلہ میں حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نے اپنے کئی اشعار میں عمر، ماروی، سسی، پنوں پنھواری سانگی، ملیر، تھر اور تھر کے ساگ، پات، للر، لونک کے ذریعے اپنے مافی الضمیر کا اظہار فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سانحہ ارتحال کا ذکر کرتے ہوتے فرمایا:

سدا ياد رهن ٿا سنگھار عمر
گھڙي پل نه وسرن ٿا پنهوار عمر

ڏاڍي آس اندر ۾ اڪير آهي
بوتو هتڙي ساھ ملير آهي
وس ڪونه هلي جھليو تقدير آهي
سگھو سانگي لهندا مئيءَ جي سار عمر

سدا ياد رهن ٿا ......

ترجمہ: ہمیشہ مجھے اپنے محبوب عمر یاد ہیں، ایک ساعت بھی انہیں نہیں بھول سکتا، اندر ہی اندر میں ان کی یاد مجھے تڑپا رہی ہے، جسم تو یہاں ہے لیکن جان ملیر میں ہے، میرے بس کی بات نہیں، مقدر نے روک رکھا ہے، امید ہے کہ محبوب عمر جلدی اس مسکین کی مدد کو پہنچیں گے۔

آپ کے اشعار میں جابجا دنیا کی محبت کی مذمت اور اس کی فنائیت اور اس کے بالمقابل ذات باری تعالیٰ کی بقاء اور وفا کا ذکر ہے۔ چنانچہ اس موضوع پر مشتمل ایک طویل شعر میں فرماتے ہیں۔

دنيا جا ڙي طالب دنيا چيز فاني
دنيا لاءِ وساريئي پنهنجو يار جاني

دنيا آهي ملعون غضب ڪيل رب جي
تون ان جو آن شيدا آ ڪيڏي ناداني

دنيا کي سڏيو ڍونڍ سرور سچي آ
ڪتا ان جا طالب ايها قدرداني

ترجمہ: اے دنیا کے طالب دنیا ایک فانی چیز ہے، تو نے دنیا کے لئے اپنے حقیقی محبوب کو بھلا دیا ہے، دنیا ملعون ہے اس پر خدا کا غضب ہے، تو پھر اس کا طالب ہے، کس قدر نادانی کی بات ہے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو مردار فرمایا ہے، اس کے طالب تو کتے ہوتے ہیں بس یہی اس کی قدر ہے۔

ان دونوں مصرعوں میں بالترتیب حدیث رسول مقبول صلّی اللہ علیہ وسلم ”الدنیا ملعونہ و ملون ما فیھا“ اور حدیث ”الدنیا جیفہ و طالبھا کلاب“ کی طرف اشارہ ہے۔

آپ کے اکثر و بیشتر شعر تو سندھی اور سرائیکی زبان میں ہیں۔ جب کہ فارسی زبان میں بھی درج ذیل ایک شعر دستیاب ہوا ہے، جو آپ نے پیر و مرشد حضرت فضل علی قریشی مسکین پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دربار پر دوران مراقبہ وجد و مستی کے عالم میں پڑھا تھا (جس کا ریکارڈ محفوظ ہے) اور طرز کلام سے یہ شعر آپ ہی کا معلوم ہوتا ہے:

فارسی شعر

غم مکن اے طالبا چوں پیر تو شاہِ فضل
قطبِ عالم غوثِ اعظم حضرتِ شاہِ فضل

فرمودہ اش خدا اے دلربا، تو خاص محبوب مرا
خوبِ خوباں جانِ جاناں حضرتِ شاہِ فضل

شد خطابش باصواب از شاہِ سرور کائنات
شرف اصحابک کا صحابی حضرتِ شاہ فضل

جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے، کے مطابق کلام شاعر بزبان شاعر کی تو بات ہی اور ہے۔ لیکن دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی بات کو خواہ وہ دوسرے کی زبان سے ہی کیوں نہ سنی جائے، بہرحال وہ اثر دکھائے بغیر نہیں رہتی۔ اس لئے آج بھی ہزاروں افراد آپ کے اشعار سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اشعار کی سلاست اور خلوص و محبت کی بناء پر سینکڑوں غیر سندھی حضرات آپ کے اشعار گنگناتے نظر آتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بعض مخالف بھی آپ کے پر تاثیر اشعار سے متاثر و مستفیض ہوتے دیکھے گئے۔ چنانچہ خانواہن کے قریب ایک شخص ذاتی طور پر تو آپ کا مخالف تھا، مگر مسجد شریف میں بلند آواز سے عموماً آپ کے (حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ) اشعار پڑھتا تھا۔ کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو کہا، ان سے ناراضگی اور مخالفت اپنی جگہ پر ہے، مگر ان کے کلام میں، حقیقی عشق و محبت کی جو غیر معمولی تاثیر ہے، وہ مجھے کسی دوسرے کے کلام میں نظر نہیں آتی، اس لئے میں بڑے ذوق و شوق سے ان کے اشعار پڑھتا رہتا ہوں۔ الفضل ما شھد بہ الاعداء

اصلاح: آپ کے نزدیک شعر و شاعری شریعت و طریقت، عقائد و نظریات کے صحیح ترجمانی کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لئے شعر گوئی میں خود بھی محتاط رہتے تھے، اور اپنے متعلقین شعراء اور نعت خوانوں کو بھی اس معاملہ میں افراط و تفریط سے محفوظ رہنے کی تلقین فرماتے تھے، نیز بعض شعراء کے کلام میں ذات باری تعالیٰ یا شان رسول مقبول صلّی اللہ علیہ وسلم میں بے ادبی یا عقائد اہل السنۃ والجماعت کے خلاف کوئی مصرعہ یا جملہ سنتے تو اس کی اصلاح فرماتے تھے۔ تاکہ فقراء ماسلف علماء و اولیاء علیہم الرحمہ کے نقش قدم پر رہیں۔ بعض نعت خواں حضرات سے مسلم شعراء کے کلام میں رد و بدل معلوم ہونے پر ان کو بلا کر آئندہ احتیاط برتنے کی تاکید فرماتے تھے، چنانچہ مورخہ ۱۹ ربیع الاول ۱۳۹۷ھ کو ایک مولوی صاحب نے حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ایک شعر اس طرح پڑھا

مٿي تي گلن جي کاري، هي ڪوئي ونجڻ والا
مين وڃڻ واري .......

اس غیر معمولی اور غیر مناسب تبدیلی پر ناراضگی کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا۔ کلام الملوک ملوک الکلام (بادشاہوں کا کلام، کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے) حضرت پیر مٹھا قلبی و روحی فداہ شعر و سخن کے شہنشاہ تھے۔ آپ کے کلام میں کسی قسم کا تصرف و اصلاح کرنے کی نہ ضرورت ہے نہ کسی کو یہ حق ہے کہ اپنی رائے کے مطابق رد و بدل کرتا پھرے۔ جو شعر مولوی صاحب نے پڑھا وہ اس طرح ہے:

سر دے اُتے پھلیں دی کھاری، ہووے کوئی ونجن والا
سجنا میں واری ۔۔۔۔۔

واری بمعنی قربان، اس کو ”ونجن واری“ کرکے پڑھنے سے اصل مفہوم ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر عموما ایک جلد ساز کا واقعہ بھی عجیب دلنواز انداز میں بیان فرماتے تھے کہ اس بچارے کی یہ عادت تھی کہ جب بھی کوئی آدمی جلد بندی کے لئے کتاب دے جاتا تو وقت نکال کر یہ اس کا مطالعہ ضرور کرتا تھا، اور جہاں کہیں اسے بزعم خویش غلطی نظر آتی، اس کی بلا تامل اصلاح کرتا تھا، خواہ وہ غلطی اس کی اپنی ہی کیوں نہ ہوتی۔ اور اس کی یہ حرکت مشہور بھی ہوگئی۔ چنانچہ ایک آدمی جلد بندی کے لئے قرآن مجید دینے آیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ براہ کرم آپ صرف جلد بنائیں، کسی قسم کی تبدیلی ہرگز نہ کریں۔ جلد ساز نے بھی ایسا کرنے کا وعدہ کرکے اسے مطمئن کردیا اور وہ چلا گیا۔ چند دن کے بعد جب وہ قرآن مجید لینے آیا اور ازراہ احتیاط پوچھا آپ نے کوئی تبدیلی تو نہیں کی۔ اس پر جلد ساز نے بتایا حسب وعدہ میں نے اور تو کہیں تبدیلی نہیں کی، البتہ اتفاقیہ طور پر چند مقامات پر غلطیاں نظر آگئیں، جن کو میں نے درست کر دیا ہے، اور اس کے بعد جب تفصیل بتانی شروع کی کہ ”عصے آدم“ دیکھ کر وہاں ”عصٰے موسےٰ“ لکھ دیا، کہ عصا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تھی، نہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کی۔ ایک اور جگہ ”خر موسے“ نظر آیا، اس کی بھی اصلاح کردی کہ وہاں ”خر عیسیٰ“ لکھ دیا، کہ خر (گدھا) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس تھا نہ کہ حضرت موسےٰ علیہ السلام کے پاس۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر ابلیس کا نام حذف کرکے اس کی جگہ اپنے اور تمہارے آباؤ و اجداد کے نام تحریر کر دیئے ہیں۔ آخر اللہ تعالیٰ کے مقدس کلام میں ابلیس کا نام ہو اور میرے تمہارے باپ دادا رہ جائیں، یہ کب درست ہے۔ بہر حال کسی اور جگہ کوئی رد و بدل نہیں کیا۔

پسندیدہ اشعار

آپ کو عربی اشعار میں قصیدہ بردہ شریف سب سے زیادہ پسند تھا اور روزانہ کے مراقبہ کی ابتداء قصیدہ بردہ شریف کے اشعار سے فرمایا کرتے تھے۔ فارسی میں رومی و جامی اور سعدی شیرازی کے اشعار، سندھی میں حضرت بیدل بیکس، سید عبدالطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیھم اور منصور ویراگی کے اشعار اور اردو میں اکبر اللہ آبادی، خواجہ عزیز الحسن مجذوب اور مولانا حالی اور علامہ اقبال کے اشعار اور سرائیکی میں حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار آپ کو زیادہ پسند تھے۔ کثرت مصروفیات کیوجہ سے آپ اپنے اشعار کی ترتیب و حفاظت نہ کرسکے۔ جس کی وجہ سے آپ کے کئی اشعار عنقا ہوگئے۔ البتہ بعد میں محترم مولانا جان محمد صاحب نے اس طرف توجہ کی۔ آپ کے اشعار جمع کئے اور آپ ہی سے تصحیح بھی کرالی، انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب حضور کے اشعار شائع کئے جائیں گے۔ فمن اللہ التوفیق والیہ المرجع والماب