[ فہرست ]

تحفۂ حبیب

 

حدیث نمبر ۱۳

فضائل سیدنا علی المرتضیٰ

رضی اللہ عنہ

 

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ عَلِیًّا مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْہُ وَ ھُوَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٌ۔

حضرت عمران بن حُصَین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علی مجھ سے ہیں اور میں اس سے ہوں (یعنی قرابت کے حوالہ سے وہ مجھ سے زیادہ ہی قریب ہے اور میں ان سے قریب ہوں) اور وہ ہر مومن کے دوست و مددگار ہیں۔

ولی کی طرح لفظ مولیٰ کا معنی بھی دوست ہے، جیسے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث شریف کے کلمات ہیں:

مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔ (رواہ احمد و الترمذی)

یعنی جن کا میں دوست و مددگار ہوں، علی رضی اللہ عنہ بھی ان ہی کے دوست و مددگار ہیں۔ لہٰذا آپ کو مولیٰ علی کہنا جائز ہے۔ ہم اہل السنّۃ والجماعۃ آپ کو اپنا دوست اور معین و مددگار سمجھتے اور کہتے ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد فرمایا کہ مجھ سے محبت نہ کرے گا مگر مومن اور مجھ سے بغض نہ رکھے گا مگر منافق (مسلم شریف)

لہٰذا ہمارا یعنی اہل السنّۃ والجماعۃ کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ حبّ علی رضی اللہ عنہ ایمان کی علامت ہے اور بغض علی کرم اللہ وجہہ نفاق کی علامت ہے۔ لیکن محبت سچی ہو کہ آپ کی اعمال میں بھی پیروی کی جائے۔ آپ کے دوستوں کو دوست جانا جائے اور آپ کی تمام اولاد سے محبت کی جائے۔ اللہ کے کرم سے یہ محبت اہل السنۃ والجماعۃ کو حاصل ہے۔ لہٰذا بغض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بغض اولادِ امجاد مثلًا ابوبکر، عثمان و اُم کلثوم رضی اللہ عنہم سے عداوت رکھتے ہوئے محبتِ علی رضی اللہ عنہ کے دعوے کسی طرح درست تسلیم نہیں کیے جاسکتے۔

مناقب سیدنا حیدر کرار رضی اللہ عنہ

آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ہیں۔ نیز آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پرورش پائی اور آپ ہی سے اہلِ بیت نبوت کا سلسلہ آگے چلا۔

غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں امامت کیلئے حضرت عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کو متعین فرمایا اور دیگر انتظامات کے لیے آپ کو مدینہ منورہ میں رہنے کا امر فرمایا، اور اس موقعہ پر ارشاد فرمایا:

اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ کہ تم مجھ سے اس درجہ میں ہو، جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھا۔ روایت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ۔ یعنی جس طرح مناجاتِ الٰہی کے لیے جاتے وقت انہوں نے حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب و خلیفہ بناکر بنی اسرائیل میں رہنے کا امر فرمایا تھا، ایسے ہی آپ بھی میرے آنے تک مدینہ میں میرے نائب و خلیفہ ہوں گے۔ لہٰذا بعض حضرات کا اس حدیث سے دلیل پکڑ کر کہنا کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بلافصل تھے کہنا کسی صورت درست نہیں۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے بعد اگر دینی امور میں خلافت و نیابت مقصود ہوتی تو حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نماز کی امامت کے لیے حضرت عبداللہ بن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو پیچھے نہ چھوڑ جاتے، حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی امامت کراتے۔ نیز یہ کہ حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد کب خلیفہ رہے؟ ان کا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے انتقال ہوگیا تھا۔

ایک اہم حدیث: سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فِیْکَ مَثَلٌ مِنْ عِیْسیٰ اَبْغَضَتْہُ الْیَہُوْدُ حَتّیٰ بَہَّتُوْا اُمَّہٗ وَ اَحَبَّتْہُ النَّصَاریٰ حَتّیٰ اَنْزَلُوْہُ بِالْمَنْزِلَۃِ الَّتِیْ لَیْسَتْ بِہٖ۔ یعنی تم میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی مثال، جن سے یہود نے بغض رکھا، یہاں تک کہ ان کی ماں پر تہمت لگائی اور نصاریٰ نے اُن سے محبت کی، یہاں تک کہ انہیں اس درجہ میں پہنچادیا جو اُن کا نہ تھا، یعنی ان کو خدا یا خدا کا بیٹا کہا۔ یہ فرماکر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: یَہْلَکُ فِیَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ یُفْرِطُنِیْ بِمَا لَیْسَ فِیَّ وَ مُبْغِضَ یَحْمِلُہٗ شَنَانِیْ اَنْ یُّبَہِّتَنِیْ (رَواہ احمد)

یعنی میرے بارے میں دو قسم کے لوگ ہوں گے۔ ایک وہ جو محبت میں حد سے گزر جانے والے کہ میری صفات میں حد سے گزر جائیں گے اور ایسی صفات بتائیں گے جو مجھ میں نہیں۔ دوسرے بغض رکھنے والے، جن کا بغض ان کو اس بات پر آمادہ کرے گا کہ میرے اوپر بہتان لگائیں۔ (مرآۃ شرح مشکوٰۃ ص۴۲۴ جز ۸)